مت ہمیں چھیڑ کہ ہم رنج اٹھانے کے نہیں زخم وہ دل پہ لگے ہیں کہ دکھانے کے نہیں زندگی اپنے مقدر کا ستم ہے ورنہ کتنے کردار ہیں جو اپنے فسانے کے نہیں بات تو کچھ ایسی ہی ہے۔ اپنی خواشہات پر نہ دربند ہوتے ہیں نہ کھلتے ہیں۔ پھر بھی ایک پیہم جستجو اور ان تھک سعی سے ایسا کچھ ہو بھی جائے تو بعید نہیں۔ خود ہی اک روز نکل آئے گا دیوار سے در۔ ہم وہ خودسر ہیں کہ اب لوٹ کے جانے کے نہیں۔ محسن نقوی کو نگران وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا اور انہوں نے حلف بھی اٹھا لیا۔حلف برداری میں چوہدری سرور نے بھی شرکت کی۔ حکمران اتحاد کے مطابق محسن رضا نقوی بہترین انتخاب ہے اور ساتھ ہی انہوں نے پی ٹی آئی والوں سے کہا ہے کہ وہ اچھلنا بند کریں۔ انہوں نے کہا کہ نجم سیٹھی بن سکتے ہیں تو محسن نقوی کیوں نہیں!! دوسری طرف پی ٹی آئی والوں نے جو جواب آں غزل کہی ہے وہ بھی دلچسپ ہے کہ انہیں یہ انتخاب ہرگز قبول نہیں اور وہ عدالت جائیں گے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا تاوقت کہ کوئی ایسی ان ہونی نہ ہو جائے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ سچ مچ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ یقینا سب کو نجم سیٹھی یاد آئے ہوں گے اور پھر ان سے منسوب 35 پنجکر بھی نہیں بھولے ہوں گے۔ یہ الگ بات کہ اس پر نجم صاحب روتے پیٹتے رہ گئے اور یہ الزام جرم کی نوبت کو پہنچ گیا خان صاحب کے ردعمل سے تو یہی لگتا ہے کہ محسن نقوی بھی پنکچر ہی لگانے آئے ہیں۔ اس فیصلہ سے مجھے ڈکی برڈ کا آئوٹ دینا یاد آ گیا کہ اس نے خان صاحب کو غلط آئوٹ دیا تھا مگر وہ ڈکی برڈ تھا مشہور تھا کہ دیانتدار امپائر ہے۔ بس وہی آئوٹ اس ون ڈے میں ہار کا باعث بنا۔ پاکستان لاہور قذافی سٹیڈیم میں کھیلے جانے والے اس میچ میں 18 رنز سے ہارا تھا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ آخری اوور میں سلیم جعفر کو اٹھارہ رنز ہی پڑے تھے۔ گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو رہے سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا اب شاعری کا تذکرہ چلا تو منیر احمد نے معلوم نہیں کس کو نشانہ بنانے کے لیے ایک شعر کی پوسٹ لگائی او رشوکت واسطی کے شعر میں تحریف کر کے اسے محسن نقوی کے نام کردیا۔ ذہن میں رہے کہ محسن نقوی ہمارے نہایت پیارے دوست تھے لاجواب شاعر۔ جی وہی محسن نقوی جنہوں نے کہا تھا یہ کس نے ہم سے لہو کا خزاج مانگ لیا۔ ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے۔ آپ ذاکر بھی ہیں مگر جو شعر وزیراعلیٰ محسن نقوی کے لیے لگایا گیا ہے وہ اصل میںشوکت واسطی کا ہے۔ شوکت کی جگہ واسطی تخلص کر دیا گیا: شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا ہم رہ گئے ہمارا زمانہ نہیں رہا جو بھی ہو حکومت اپنا بندوبست تو کر رہی ہے کہ کہیں اس سے پہلے عوام ان کا بندوبست نہ کردے۔ تاریخ کی بات میں نے کی تھی کہ یہ دہراتی ہے اپنا آپ۔ ایک اور بات سامنے آ گئی کہ اب حکومت خود تو کچھ کر نہیں سکی اور وہی الزام تراشی جانے والوں پر کر رہی ہے جو خان صاحب کی پارٹی کیا کرتی تھی۔ توشہ خانے کے بعد اب ایک اور سلسلہ خان صاحب کے خلاف شروع ہوگیا ہے کہ انہوں نے تین لاکھ ڈالر ہائوسنگ منصوبے میں لگائے ۔ وہی بات کہ حکومت اپنی کارکردگی کی بات نہیں کر رہی بلکہ وہی پرانہ وطیرہ الزام تراشی کا۔ نوازشریف فرما رہے ہیں کہ ان کے چار سالہ دور حکومت کا موازنہ عمران کے تین سالہ حکومت کے ساتھ کیا جائے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے مگر سوال تو یہ ہے کہعمران خان کی چلتی ہوئی حکومت پر عدم اعتماد کا شب خون مارنے کے بعد آپ ثابت نہ کر سکے کہ آپ ناگزیر ہے۔ آپ نے خرابی کو سپیڈ اپ کر دیا۔ ایسے ہی احمد مشتاق یاد آ گئے: خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو ایک اور خبر پر میری ہنسی نہیں رکی کہ خبر لگانے والے بھی ستم ظریف ہوتے ہیں۔ خبر لگائی ہے کہ محسن نقوی نے چھوٹی عمر ہی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا۔ لوہا منوانے کے محاورہ سے ظاہر ہے میرا دھیان شریف فیملی کی طرف گیا کہ انہوں نے بھی اپنے لوہے کو سونا بنانے کا فن بہت پہلے سیکھ لیا تھا۔ کبھی تو یہ محاورہ بنا کہ سو سنار کی اور ایک لوہار کی۔ یہ بات درست کہ محسن نقوی کا تعلق صحافت سے ہے اور وہ بہت تجربہ کار آدمی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کا ایک شعر نئے تناظر کے حوالے سے یاد آگیا: یہ ارتقا کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے ہیں پرانا ہونے میں تو خیر کوئی برائی نہیں کہ نیا نو دن اور پرانا سو دن۔ مگر یہاں تو ترقی کی بات ہے کہ آگے بڑھا جاتے یہاں پرانے وہ لوگ ہیں جو نہایت چالاکی سے مل کر باری باری ملک لوٹ رہے تھے اور مصیبت یہ کہ ان کو ہٹا کر جو آئے وہ بھی پرانے ہوتے گئے۔ وہ بھی پامال راستوں پر چل پڑے۔ نیا راستہ نہیں نکالا۔ عجیب باتیں ہونے لگی ہیں۔ شیخ رشید فرماتے ہیں کہ ملک خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ یہ بیان شیخ رشید کا ہے یہ ملک انشاء اللہ قائم و دائم رہے گا۔ آخری بات دکھ بھرے دل کے ساتھ کہ ہماری نااتفاقی یعنی مسلم امہ کے پارہ پارہ ہونے سے اسلام دشمن ہمیں آزمانے کے لیے نت نئی جسارت کرتے ہیں۔ سراج الحق صاحب نے درست کہا کہ سویڈن واقعہ پر مسلمانوں کے دل جل رہے ہیں۔ انہوں نے او آئی سی کو بھرپور اقدام کا مشورہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے حکمران کو کشکول بدست مست پھرتے ہیں۔ اس کشکول برادری کے مشن میں صرف حکمرانوں کے حالات ہی بدلتے ہیں۔ عوام کو کچھ نہیں ملتا۔ عوام کو چاہیے کہ وہ پرخلوص لوگوں کی قدر کریں۔ دیکھ بھال کر اپنے لوگ چنیں۔ آخر میں نہایت عمدہ شاعر ارشد منظور کا شعر: چپ دے جندرے توڑن دا ہن ویلا اے طالب آ کے بولن دا ہن ویلا اے