وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اپنے انٹرویو میں ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کر گئے۔ امریکی نشریاتی ادارے کو اپنے تفصیلی انٹرویو میں انہوں نے دو دلچسپ باتیں کیں۔ ان سے پوچھا گیا کرپشن کے الزام میں گرفتار نواز شریف اور آصف زرداری دونوں ہی ضمانت پر رہا ہو گئے۔ کیا یہ حکمران جماعت کے بیانئے کے لئے صدمہ انگیز بات نہیں۔ فرمایا کہ نہیں۔ دونوں لیڈروں کی سیاسی اہمیت ختم ہو چکی ہے۔ اس لئے انہیں قید میں رکھنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ ’’ٹیکنالوجی‘ ملاحظہ کیجئے‘ انہوں نے برسر اقتدار پارٹی میں رہتے ہوئے‘ وزیر کی حیثیت میں نواز شریف ہی کی بات کی تصدیق نہیں کر دی کہ مجھ پر کرپشن کے الزامات محض بہانہ ہیں‘ اصل وجہ کچھ اور ہے بقول ان کے ووٹ کو عزت دو کا مطالبہ اصحاب کو ناپسند آیا اور انہیں اقتدار کے ایوان سے نکال کر انصاف کے ایوان میں ڈال دیا۔ آصف زرداری بھی اسی طرح کی بات کرتے ہیں۔ مسلم لیگ کے لیڈر چاہیں تو ٹیکنالوجی کے اس استعمال پر وفاقی وزیر کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ پرانے دور میں کرپشن کی کہانی تخلیق کرنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی۔ سیدھے سبھائو غداری کی سند جاری کر دی جاتی تھی۔ اس میں آسانی یہ تھی کہ نہ کوئی جے آئی ٹی بنانا پڑتی تھی‘ نہ اقامہ تلاش کرنے کی زحمت اٹھانا پڑتی تھی۔ نہ ہی کسی بلیک لا ڈکشنری سے استفادے کی ضرورت ہوتی تھی۔ غداری کا الزام اپنے آپ میں ہی کافی تھا۔ مادر ملت نے بھی ووٹ کی عزت کے حوالے سے تحریک چلائی تھی‘ حکومت وقت نے انہیں بھارت کا ایجنٹ قرار دیا۔ کمال کی بات تھی۔ بھائی نے جس سے الگ ہو کر ملک بنایا‘ بہن اسی بھارت کی ایجنٹ بن گئی۔ اس سے بھی زیادہ کمال مولانا مودودی مرحوم کے باب میں ہوا۔ انہوں نے بھی عوام کو حق رائے دہی دینے کا مطالبہ کیا۔(ایوب خاں ووٹ دینے کا حقدار صرف 80ہزار بی ڈی ممبرز کو سمجھتا تھا) تو حکومت نے انہیں بیک وقت امریکہ اور بھارت‘ دونوں کا ایجنٹ قرار دے دیا۔ بھارت اور امریکہ اس وقت آپس میں دشمن ملک تھے۔ مولانا مودودی نے یہ کمال کر دکھایا کہ دونوں کے ایجنٹ بن گئے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ امریکہ اس وقت پاکستان کا واحد دوست ملک تھا(اتفاق سے آج بھی وہی واحد ’’دوست‘‘ ملک ہے) ٭٭٭٭٭ وزیر سائنس نے شکوہ کے رنگ میں یا بطور نشاندہی یہ بات بھی کی کہ ہر ادارہ زیادہ اختیارات کا طالب ہے۔ اداروں کو مل بیٹھ کر ڈائیلاگ کرنا چاہیے۔ منفرد تجویز ہے۔ اختیارات کا تعین آئین میں واضح ہے اور دو ٹوک ہے۔کیا وزیر صاحب کسی نئے آئین کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ معاملہ تعین کا کہاں ہے؟ معاملہ تو آئین کو قبول نہ کرنے کا ہے یہاں جو آئین کے احترام کا مطالبہ کرتا ہے‘ اس کا اقامہ نکل آتا ہے یا اس کی گاڑی سے 20کلو ہیروئن برآمد ہو جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر موصوف نے آئین کے احترام کا خطرناک مطالبہ نہیں کیا‘ اس کے بجائے‘ بالواسطہ طور پر نئے آئین کے لئے ڈائیلاگ کی بے ضرر تجویز دینے ہی میں عافیت سمجھی ہے۔ ٭٭٭٭٭ شیخ رشید نے پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول کو مشورہ (بانداز حکم) دیا ہے کہ وہ پلی بارگینگ کر لیں ورنہ سیاست سے غیر موثر ہو جائیں گے۔ حیرت ہے‘ ابھی مہینے بھر پہلے تک ان کی اطلاع تھی کہ زرداری خاندان پلی بارگین کر چکا ہے(اگرچہ برآمد شدہ یا حوالہ کی گئی رقم کا تذکرہ انہوں نے کبھی نہیں کیا)اب وہ اس کا مشورہ دے رہے ہیں؟ لگتا ہے شیخ صاحب نے یہ مشورہ اس لئے دیا کہ وہ میڈیا، سرخیوں‘ تبصروں میں رہیں۔ ورنہ وہ باخبر ہیں‘ جانتے ہیں کہ پلی بارگیننگ کا یہاں کوئی معاملہ ہے ہی نہیں۔ بات کسی اور سمت میں آگے بڑھ گئی ہے اور وہاں پہنچ گئی ہے جہاں پہنچنے کی توقع عمران خاں کو تھی نہ شیخ صاحب کو ٭٭٭٭٭ حکومت اور نیب البتہ احتساب کے معاملے میں پرانے پیج پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ نیب اور حکومت میں فرق محض رسمی ہے اور یہ رسمی فرق بھی پچھلے ہفتے اس وقت مٹ گیا جب صدر اور وزیر اعظم کی موجودگی میں چیئرمین نیب صاحب نے سیاسی احتساب کے حق میں خطاب فرمایا اور اپنے ایک پچھلے بیان کی عذر خواہی بھی کی جس سے حکمران جماعت کو خواہ مخواہ کی غلط فہمی ہو گئی تھی۔ اس بیان میں انہوں نے فرمایا تھا کہ (احتساب کی) ہوائوں کا رخ بدل رہا ہے۔ لوگوں نے اسے وہی معنے پہنائے کہ جو پہنانے بنتے تھے۔ صدر اور وزیر اعظم کی مشترکہ تقریب میں چیئرمین صاحب نے وضاحت پیش کی کہ دراصل بہت بیان آ رہے تھے کہ نیب یکطرفہ احتساب کر رہا ہے۔ مجبور ہو کر ہوائوں کا رخ بدلنے والا بیان دیا۔ امید ہے خاں صاحب نے ’’معذرت‘‘ قبول کر لی ہو گی۔ اس تقریب سے یہ بات بہرحال معلوم ہو گئی کہ وہ ’’گنبد یک در‘‘ کہاں واقع ہے جس کی چھت کے نیچے ہوائوں کا دبائو جنم لیتا ہے اور پھر ہوائیں رخ نہیں‘ پہلو اور پینترے بدل بدل کر اپوزیشن کا رخ کرتی ہیں۔ صدر‘ وزیر اعظم اور چیئرمین صاحب نے ایک ہی چھت تلے اکٹھے ہو کر اس ’’گنبد یک در‘‘ کی نشاندہی کر دی جس پر تاریخ ان کی ممنون رہے گی۔ تازہ خبر ہے کہ نیب کی ہوائوں نے احسن اقبال سمیت تین چار مسلم لیگی لیڈروں کا رخ کر لیا ہے۔ گردباد کا بگولہ انہیں کسی بھی وقت ان کی اٹھا پٹخ کر سکتا ہے۔