وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے کر اپوزیشن کے اس دبائو کو کسی حد تک کم کر دیا ہے جو سینٹ انتخابات میں حفیظ شیخ کی شکست کے اثرات جوڑ کر تیار کیا جا رہا تھا۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حیثیت کا بے جا دفاع کرنے کی بجائے آئین سے رجوع کر کے ایک اچھی نظیر قائم کی ہے۔2018 ء کے عام انتخابات کے بعد عمران خان کو وزیر اعظم کے طور پر 340نشستوں والی قومی اسمبلی سے 176ووٹوں کی سادہ اکثریت ملی تھی۔ اس بارحالات ناموافق تھے لیکن وزیر اعظم کو 178ووٹ ملنا اس امر کو تقویت دیتا ہے کہ سینٹ انتخابات میں ان کے نامزد امیدوار کے خلاف پارٹی کے چند ووٹ وزیر اعظم سے کسی ناراضی کی بنیاد پر نہیں بلکہ خریدوفروخت کے باعث پڑے۔ قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے یہ اجلاس آئین کے آرٹیکل 91 کی ذیلی شق سات کے تحت طلب کر کے وزیراعظم کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کو کہا۔خیال رہے کہ آئین پاکستان کے مطابق صدر اس شق کے تحت صرف اسی صورت میں وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کو کہہ سکتا ہے جب اسے یقین ہو کہ وزیراعظم قومی اسمبلی کے اراکین کا اعتماد کھو چکے ہیں۔آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ صدر نے اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا کہا ۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اجلاس کے شروع میں تحریک اعتماد کے متعلق رولنگ پڑھی اور ضابطے کی کارروائی سے اراکین کو آگاہ کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قرار داد پیش کی جس پر سپیکر نے وزیر اعظم پر اعتماد کرنے والوں کو دائیں طرف کے چیمبر میں جانے کی ہدایت کی۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اجلاس کا بائیکاٹ کر رکھا تھا اس لے رائے دہندگان کی گنتی کم وقت میں مکمل ہو گئی۔ سپیکر نے وزیر اعظم پر 178اراکین کے اعتماد کا اعلان کرنے کے بعد ہال کو تقاریر کے کھول دیا۔ حالیہ سینٹ انتخابات کے دوران ووٹوں کی خریدوفروخت پر حکومت نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ حکومت نے پارلیمنٹ میں ترمیم کے لئے مسودہ پیش کیا تاکہ اوپن بیلٹ کا طریقہ اختیار کیا جا سکے‘ اس سلسلے میں عددی مشکلات کے باعث صدر مملکت کو آرڈی ننس جاری کرنے کی درخواست کی گئی‘ ساتھ ہی سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا کہ وہ ووٹوں کی خریدوفروخت کو روکنے کے لئے طریقہ کار کی بابت حکومت کو رائے دے۔ یہ معاملہ ہنگامی نوعیت کا تھا جس پر آئینی اور قانونی عمل میں ایسی گنجائش دکھائی نہ دی کہ ووٹوں کی خریدوفروخت روکی جا سکتی‘اس حوالے سے قابل ذکر امر یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کچھ اراکین اسمبلی کو ووٹ ضائع کرنے کے طریقے اور ترغیب دیتے پائے گئے‘ ایک دوسری ویڈیو میں سندھ کے ایک وزیر حکومتی رکن کو یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے کے بدلے مراعات کی یقین دہانی کراتے دیکھے گئے۔ اصولی بات یہ تھی کہ الیکشن کمشن ان ویڈیوز کی تحقیقات سے پہلے انتخابی عمل روک دیتا۔ انٹیلی جنس اداروں اور تحقیقاتی ایجنسیوں سے مدد حاصل کرتا لیکن کچھ نہ کیا گیا۔ اس دھاندلی کو روکنے میں ناکامی پر جب حکومت نے الیکشن کمشن سے شکوہ کیا تو جواب میں اپنی آزادی کے بیانات جاری کئے جانے لگے۔ اس صورت حال میں انتخابات ہوئے اور اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں اپنی نشستوں سے زیادہ ووٹ مل گئے۔ یہ وہ نکتہ تھا جس کے گرد اپوزیشن نے اپنی آئندہ کی حکمت عملی ترتیب دے رکھی ہے۔ قومی اسمبلی میں اکثریت کی دعویدار اپوزیشن نے ہفتے کے روز وہی غلطی کی جو عمران خان نے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے کر کی تھی۔ پارلیمنٹ کا مقدس قرار دیا جانے والا ایوان چھوڑ کر مسلم لیگ ن کے بعض رہنمائوں نے اسمبلی کے سامنے پریس کانفرنس کے نام پر اجتماع کر لیا۔ ذرائع ابلاغ میں ظہور کرتی ویڈیوز کے مطابق ان رہنمائوں نے تحریک انصاف کے کارکنوں کے سامنے کچھ ایسے خیالات کا اظہار کیا کہ معاملہ خراب ہو گیا۔ کچھ رہنما تو جانے کیوں تحریک انصاف کے کارکنوں میں گھس گئے جس پر مسلم لیگ ن کے سینئر رہنمائوں کے ساتھ قابل افسوس سلوک ہوا۔ بعدازاں پی ڈی ایم رہنمائوں نے پریس کانفرنس کی اور تحریک اعتماد و تشدد کے واقعہ پر اپنا موقف پیش کیا۔ سوال یہ ہے کہ اپوزیشن رہنما اس وقت وہاں کیوں گئے جب پارلیمنٹ کے گرد تحریک انصاف کے کارکن اپنے وزیر اعظم کی حمایت میں جمع ہو رہے تھے‘ کیا اس کا مطلب انتشار پیدا کرنا اور ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کرنا تھا۔ سچ یہی ہے کہ اپوزیشن کو اپنا جمہوری حق استعمال کرنا ہوتا تو وہ ایوان میں بیٹھتی یا پھر اس کے رہنما کسی اور جگہ پریس کانفرنس رکھ لیتے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک مشکل وقت میں اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے اخلاقی سطح پر خود کو اپوزیشن سے برتر ثابت کیا ہے۔ اوپن بیلٹ کے متعلق ان کا موقف درست ثابت ہوا ہے۔ سیاسی نظام میں پیسے کے عمل دخل کے بارے میں ان کے جو خدشات تھے وہ حقیقت بن کر سامنے آئے ہیں‘ اداروں کی کارکردگی کے متعلق ان کا عدم اطمینان بے بنیاد نہیں رہا۔ اس صورت حال میں انہوں نے ایوان میں اپنی عددی اکثریت دکھا کر گویا احتساب ‘ انتخابی اصلاحات اور قومی تعمیر و ترقی کے حوالے سے نیا مینڈیٹ لے لیا ہے۔