وزیراعظم عمران خان کا دورۂ جمہوریہ تُرکیہ کامیاب رہا۔ اِس دورے کی کامیابی کے بارے میں نہ صِرف سرکاری ذرائع بلکہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی اطمینان اور خُوشی کا اظہار کِیا گیا، جب کبھی کوئی ہمارے صدرِ مملکت یا وزیراعظم جمہوریہ تُرکیہ سے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات مضبوط کرنے کے لئے وہاں جاتے ہیں یا کوئی صدر جمہوریہ تُرکیہ یا وزیراعظم ۔ پاکستان کے دورے پر تشریف لاتے ہیں تو، نہ صِرف حکومتِ پاکستان بلکہ پاکستان کے عوام کو بھی بہت ہی خُوشی ہوتی ہے۔ عموماً ہمارے صدر یا وزیراعظم استنبول میں جمہوریہ تُرکیہ کے بانی ’’ اتا تُرک‘‘ مصطفی کمال پاشا کے مزار پر حاضری دیتے ہیں اور استنبول ہی میں "Topkapi Museum" میں ’’پیغمبرِ انسانیت صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم اور خُلفائے راشدینؓ ‘‘ کے تبرکات ( زیر استعمال اشیاء ) کی زیارت ضرو ر کرتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان قونیہ ؔ میں مولانا رومیؒ کے مزار پر بھی گئے۔ تبرکات میں ’’ ذوالفقار‘‘کے نام سے معروف دو دھاری تلوار ہے جو، پیغمبرِ انقلاب کو غزوۂ بدر میں مالِ غنیمت میں ملی تھی۔ ذوالفقار ؔ پر دندانے اور کُھدی ہُوئی لکیریں تھیں۔ آنحضرت ؐ نے ذوالفقارؔ حضرت علی ؑ کو عطا کردِی تو اُس کا نام ’’ذالفقارِ علی ؑ ‘‘ پڑگیا۔ اکثر مسلمان اپنے بیٹوں کے ایسے نام رکھتے ہیں جس میں ’’مدینۃ اُلعلم ؐ ‘‘کا نام محمد ؐیا ’’ باب اُلعلم‘‘ حضرت علی ؑ کانام شامل ہوتا ہے۔ کیا خُوب اتفاق ہے کہ ’’ جمہوریہ تُرکیہ ‘‘ کے بانی غازی مصطفی کمال پاشا کے نام میں حضور اکرمؐ کا صفاتی نام ؔمصطفی شامل ہے اور بانی ٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ کا نام میں تو رحمتہ اُللعالمین ؐ کا نام محمد ؔاور مولائے کائنات ؑحضرت علیؔ۔ دونوں نام شامل ہیں ۔ خلافت کے ناکارہ ادارے کو ختم کر کے تُرکیہ کو جمہوریہ بنانے والے غازی مصطفی کمال پاشا کو تُرک قوم نے ’’ اتا تُرک‘‘ کا خطاب دِیا تھا۔یعنی ’’ ترکوں کا باپ‘‘ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کو بھی ’’ بابائے قوم‘‘ کہا جاتا ہے ۔ 4 جنوری کو اتا تُرک کے مزار پر حاضری دے کرپھولوں کی چادر چڑھا کر فاتحہ خوانی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’ قائداعظم محمد علی جناحؒ اتا تُرک ؔکے بہت ہی مدّاح تھے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ قائداعظمؒ کے ساتھ ساتھ نہ صِرف متحدہ ہندوستان اور پھر پاکستان ؔ کے مسلمان اتا تُرک کے مدّاح تھے / ہیں ۔ علاّمہ اقبالؒ نے تو اُن کی مدّح میں کئی نظمیں لکھیں ۔1932ء میں غازی مصطفی کمال پاشا نے ’’ستاریہ ‘‘ کی جنگ میں یونانیوں کوشکست دِی تو’’ طلوع ِ اِسلام‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی طویل نظم میں نہ صِرف تُرکیہ بلکہ دُنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ سبق دِیا کہ … غلامی میں نہ کام آتی ہیںشمشیریں نہ تدبیریں! جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں! …O… کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا! نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں! معزز قارئین!۔ مجھے بھی دو بار دورۂ جمہوریہ تُرکیہ کا موقع مِلا۔ پہلی بار 14 اکتوبر سے 4 نومبر 1973ء تک اپنے دو مرحوم صحافی اور دانشور دوستوں ، جناب انتظار حسین اور جناب سعادت خیالیؔ کے ساتھ اور دوسری بار ستمبر 1991ء میں صدرِ پاکستان (مرحوم ) غلام اسحاق خان کے ساتھ ۔ دونوں بار مَیں نے ’’ اتا تُرک‘‘ کے مزار پر حاضری دِی اور حضور پُر نور ؐ اور اُن کے چاروں خُلفاء ؓکے نوادرات ؔبھی دیکھے۔ مَیں نے دونوں بار اپنے دوست صحافیوں کے ساتھ پبلک ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ جمہوریہ تُرکیہ کی فراہم کردہ گاڑی پر استنبول سے کچھ زیادہ فاصلے پر ہجرت کے بعد مدینہ ؔمنورہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کے میزبان حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مزار پر بھی حاضری دِی تھی لیکن مجھے حسرت ہے کہ ’’ مَیں علاّمہ اقبال ؒ کے پیرو مُرشد جلال اُلدّین رومی ؒ المعروف مولانا رومیؒ (30 ستمبر 1207ئ) کے مزار پر حاضری نہیں دے سکا ‘‘۔ مولانا رومیؒ کا شاہکار ’’مثنوی ٔ ، معنوی ‘‘ ہے، جس کے بارے میں کسی اُستاد شاعر نے کہا تھا کہ… مثنویٔ ، معنوی ٔ ، مولوی ! ہست قُرآں ، در زبانِ پہلوی! یعنی۔ ’’ مولانا رومؒ کی مثنوی ٔ ، معنویٔ فارسی زبان میں قرآن پاک ہے ‘‘۔ علاّمہ اقبالؒ کی فارسی تخلیق ’’مثنوی اسرارِ خُودی ‘‘ شائع ہُوئی، جس کے شروع میں علاّمہ صاحب ؒ نے اپنے پیرو مُرشد کے یہ تین شعر درج کئے ہیں … دِی شیخ باچراغ ھمی گشت گِردِ شہر! کزدام ودد مُلولم و اِنسانم آرزُوست! …O… زِیں ھمرہانِ سُست عناصر دلم گرفت! شَیر خُدا و رُستم دستانم آرزُوست! …O… گُفتم کہ یافت می نشود جُستہ ایم ما! گُفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزُوست! یعنی۔(1) ’’ کل شیخ (پیرو مُرشد) چراغ لے کر شہر میں گھوم رہے تھے اور کہتے تھے کہ ، مَیں درندوں ؔ اور چوپایوںؔ سے تنگ ہُوں اور اِنسان ؔ دیکھنے کی خواہش رکھتا ہُوں‘‘۔ (2) مَیں اِن نکمے ساتھیوں سے بیزار ہو چکا ہُوں ۔ مَیں ایسے لوگوں کی تلاش میں ہُوں جو شیر خُداؔ ہُوں اور (ایران کے پہلوان ) رُستم دستاں کی سی قوت رکھتے ہُوں (یعنی ۔ روحانی اور بدنی ) دونوں قوتیںرکھتے ہُوں‘‘۔ (3) مَیں نے کہا کہ ’’ ایسے لوگ نہیں ملتے ، ہم بہت ڈھونڈ چکے ہیں ‘‘۔ اُس ( پیرو مُرشد نے کہا کہ ’’ جو، نہیں ملتا مَیں اُسی کی تلاش میں ہُوں‘‘۔ معزز قارئین!۔ دراصل علاّمہ اقبالؒ نے اپنی مثنوی میں اشارہ دِیا تھا کہ ’’ میری مثنوی شیرِ خُدا اور رستم دستاں جیسے انسان پیدا کرے گی‘‘۔ میرے مزدیک جمہوریہ تُرکیہ کے بانی اتا تُرک ، غازی مصطفی کمال پاشا اور بانی ٔ پاکستان ، قائداعظم محمد علی جناحؒ دو ایسے مثالی مسلمان لیڈر تھے جن پر اُمتّ مسلمہ فخر کرسکتی ہے ۔ اتا تُرک نے اپنی زندگی ہی میں اپنی تمام جائیداد قوم کے نام کردِی تھی۔ قائداعظمؒ نے بھی ایسا ہی کِیا تھا۔ اُنہوں نے اپنی جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا۔ اُن کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنے عظیم بھائی کے شانہ بشانہ قیام پاکستان کے لئے جدوجہد کی تھی لیکن’’ گورنر جنرل پاکستان ‘‘ قائداعظم ؒ نے اپنی بہن کو حکومت اور مسلم لیگ ؔ میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا ۔ اُن کے چھوٹے بھائی احمد علی جناح کو بھی بمبئی واپس جانا پڑا، کیونکہ قائداعظمؒ نے اُن کی کاروبار میں مدد کرنے سے انکار کردِیا تھا ۔ حیرت ہے کہ ’’ عُلمائے سُو ‘‘ نے ملّت اِسلامیہ کے اِن دونوں لیڈروں کے خلاف کُفر کے فتوے دے کر رُسوائی حاصل کی۔ ایک دَور میں قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ ’’ میرے جیب میں کھوٹے سکّے بھی ہیں‘‘۔ اُن کا قول صحیح ثابت ہُوا۔ ہر فوجی آمر نے اپنے دَور میں اپنے ’’ چیلے چانٹوں‘‘ کی قیادت میں مسلم لیگ بنوائی ۔ مسلم لیگ (ن) تو بدترین ؔمسلم لیگ نکلی۔ ستمبر 2013ء میں جمہوریۂ تُرکیہ کے صدر جناب عبداللہ گُل کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کو ’’ تمغۂ جمہوریت‘‘ سے نوازا گیا۔ بھلا اِس میں صدر تُرکیہ کا کیا قصور؟۔ نومبر 2016ء میں صدر رجب طیب اردگان پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو اُنہوں نے وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو ’’ بھائی‘‘ کہہ کر پکارا۔ اُنہیں کیا معلوم تھا کہ ’’ بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی ، قائداعظمؒ کے پاکستان کے عوام سے کیا سلوک کریں گے؟۔ محترم وزیراعظم عمران خان صاحب!۔ آپ کو دورۂ جمہوریہ تُرکیہ مبارک ہو! لیکن، آپ کو بھی اپنی جیب کو ٹٹولنا ہوگا کہ ’’ اِس میں کتنے سکّے کھرے ہیں اور کِتنے کھوٹے ؟‘‘۔ اتا تُرک کے جانشین تو اچھے نکلے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ بھی وزیراعظم کی حیثیت سے قائداعظمؒ کے صحیح جانشین ثابت ہوں اور ہاںآئندہ کبھی دورۂ تُرکیہ پر تشریف لے جائیں تو، حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر ضرور حاضری دیں ۔ جب تک مسجد نبوی ؐ تعمیر نہیں ہُوئی تھی ۔ پیغمبرِ اِنسانیتؐ نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر قیام فرمایا تھا اور جب نبی اکرمؐ نے ’’انصارِ مدینہ ‘‘ اور ’’ مہاجرین مکّہ‘‘ میں ’’رشتہ ٔ مواخات ‘‘ ( بھائی چارا) قائم کردِیا تھا تو حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے ایک مہاجرِ مکّہ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو اپنی آدھی دولت اور جائیداد دے دِی تھی‘‘ اور ہاں!۔ جنابِ وزیراعظم ! ۔ ’’ ریاست ِ پاکستان‘‘ کو ’’ ریاستِ مدینہ‘‘ بنانے کے لئے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے افکار و نظریات سے روشنی لینے میں آپ کو اور اہلِ پاکستان کو بہت فائدہ پہنچے گا۔