بہت سے احباب مجھے اپنے اپنے علاقوں کے مسائل کے بارے میں آگاہ کرتے رہتے ہیں ، غالباً ان کو خوش فہمی یا غلط فہمی ہے کہ میں جو کچھ لکھتا ہوں اس پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔ پچھلے دنوں کراچی گیا تو سندھی قوم پرست دوست منظور علی شاہ نے کہا کہ کراچی کے جزائر سندھ کی ملکیت ہیں مگر وفاق یہ جزائر چھیننا چاہتا ہے ، اس پر آپ لکھیں۔ میں نے ان کو بتایا کہ تھل ، چولستان اور دامان وسیب کے علاقے ہیں ، وہاں قبضے ہو رہے ہیں ، میں لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں ، کسی نے توجہ نہیں دی تو میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ میرے لکھنے سے سندھ جزائر کا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ پچھلے دنوں بھکر کے علاقہ گوہر والا میں 31واں سالانہ سرائیکی مشاعرہ تھا ، صدارت ایم این اے ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ نے کی ، گوہر والا صحرائے تھل کے دور دراز مقام پر ہے ، ہر طرف ریت کے ٹیلے ہیں مگر لوگ ہزاروں کی تعداد میں وہاں پہنچتے ہیں ، وہاں شعرا کرام نے اپنی شاعری کے ذریعے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو مخاطب کر کے وسیب کی محرومی اور پسماندگی ختم کرنے کے مطالبات کئے ۔ ایم این اے ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ نے تائید کی ۔ میانوالی کے علاقہ پپلاں سے میرے ایک کرم فرما ملک امیر مجھے فون کرتے رہتے ہیں ،اسی طرح موضع علو والی پپلاں کے نمبردار ملک فلک شیر کے ساتھ ساتھ انجمن تاجران کے صدر ڈاکٹر رانا محمد حسین نے ایک درخواست کے ذریعے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے اپیل کی ہے کہ قدیم شیر شاہ سوری روڈ علو والی تا واپڈا کالونی کی تعمیر کیلئے فنڈز جاری کئے جائیں ۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس روڈ کی تعمیر سے کندیاں ، علو والی ، دو آبہ ، جال ، پپلاں ، کچا گجرات ، ، کچا شاہنواز والا، بانگڑی ، میلے والی ، پہاڑ پور ، بھکڑہ ، کنڈل ، کڑی خیسور ، عمر خیل کے لوگ استفادہ کر سکیں گے اور یہ علاقہ سی پیک سے بھی استفادہ کرنے کے قابل ہو جائے گا ۔ درخواست میں اسی حلقہ سے منتخب ہونے والے سردار سبطین خان سے بھی توجہ کی درخواست کی گئی ہے۔ اس بارے میں اتنا عرض کرتا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان کو پورے ملک کے تمام پسماندہ علاقوں کے ساتھ ساتھ میانوالی کے مسائل کے حل کیلئے فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ میانوالی کے لوگ غیر مشروط طور پر ان کو مسلسل منتخب کرتے آ رہے ہیں ۔ میانوالی کی محرومی و پسماندگی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ، اگر آج بھی مسئلے حل نہیں ہوتے تو پھر کب ہونگے ؟ گزشتہ دنوں ملتان سے بھکر بس پر جانا ہوا ،یہ روڈ ایم ایم ایم یعنی ملتان ،میانوالی اور مظفر گڑھ روڈ کہلاتی ہے اس راستے پر تھل کے اضلاع مظفر گڑھ ،لیہ ،بھکر ،خوشاب اور میانوالی آتے ہیں،پوری روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکا رہے لیکن فتح پور سے سرائے مہاجر تک 37کلومیٹر کے راستے میں ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ گہرے کھڈے بھی پڑے ہوئے ہیں ،بس کنڈیکٹر نے بتایا کہ متعدد مواقع پر اس روڈ پر کئی مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے فوت ہوئے اور یہ بھی کہ یہ سڑک 2سال سے خراب ہے ۔ یہ روڈ میانوالی روڈ کہلاتی ہے اور اس سڑک پر ضلع میانوالی اور ضلع بھکر کے ارکان اسمبلی آئے روز سفر کرتے ہیں ۔ اس سے زیادہ مجھے کہنے کی کچھ زیادہ ضرورت نہیں کہ تقریباً تمام ارکان اور وزراء کا تعلق تحریک انصاف ہے اور وزیراعظم ، وزیراعلیٰ بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں،وسیب کے کروڑوں لوگوں کا صرف اتنا سوال ہے کہ کیا اب بھی وہ تخت لاہور کو دوش دیں ؟ دیکھا جائے تو عمران خان کا تعلق بھی تھل سے ہے کہ میانوالی تھل کے اضلاع میں شامل ہے ، اس موقع پر ضروری ہے کہ تھل کی تاریخ اور جغرافیہ بارے روزنامہ 92 نیوز کے قارئین کو آگاہ کیا جائے ۔ تھل کے بارے میں بہت سی روایات ہیں ، ایک روایت کے مطابق صدیوں پہلے یہاں دریا بہتا تھا ، دریا نے رخ بدلا تو یہ علاقہ صحرا میں تبدیل ہو گیا ،یہ بھی روایت بیان کی جاتی ہے کہ یہ علاقہ ہزاروں برس پہلے سمندر کا حصہ تھا، تھل میں آپ جائیں تو تھلوچی یا تھلوچڑوں کو اب بھی امید ہے کہ روٹھا ہوا دریا ایک دن مان جائے گا اور دریا بہتا رہے گااور تھل ایک بار پھر سرسبز شاداب وادی بنے گا ، یہ روایت سن کر مجھے چولستان یاد آیا کہ چولستان کے باشندے بھی نسل در نسل اس آس امید پر زندہ ہیں کہ ’’ رس گیا ہاکڑہ ول واہسی ‘‘ یعنی روٹ جانے والا دریائے ہاکڑہ ایک بار پھر بہے گا۔ جغرافیائی لحاظ سے میانوالی اور بھکر کا بیشتر علاقہ ریگستان ’’ تھل ‘‘ پر مشتمل ہے۔ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے اور جنوب میں وسیع صحرا’’ تھل ‘‘ دور تک پھیلا ہوا ہے۔ صحرا کو آباد کرنے کیلئے 1949ء میں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی ۔ بھکر اس کا صدر مقام رہا، تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے تھل کو آباد کرنے کے نام پر تھل کے لوگوں سے حق ملکیت چھین لیا اور محکمہ مال کے ریکارڈ میں ان کے ملکیت نامے ختم کر کے کہا گیا کہ تھل کینال بنے گی ، ایک تہائی رقبہ تھل کینال کے اخراجات کے طور پر لیا جائے گا اور نہر بننے کے بعد دو تہائی رقبہ مالکان کو واپس کر دیا جائے گا۔ تھل کے قدیم باشندوں کو ایک بار پھر سے دور دراز ٹیلوں پر پھینک دیا گیا جو کہ شاید سو سال بعد بھی آباد نہ ہوں ۔ تھل کے لوگ غیر منصفانہ اقدام کے خلاف عدالتوں میں گئے ، سول مقدمے کی بناء پر ان کی تیسری نسل عدالتوں میں ہے ، انصاف نہیں ملا۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو بھکر میانوالی کی تحصیل تھی ، یکم جولائی 1982ء کو اسے ضلع کا درجہ ملا، بھکر کے شمال میں میانوالی ، مشرق میں خوشاب و جھنگ اور جنوب میں ضلع لیہ ہے۔ ضلع بھکر کی مغربی سرحد کے ساتھ دریائے سندھ بہتا ہے، دریا کی دوسری طرف سرائیکی وسیب کا نہایت ہی ثقافتی و ادبی ضلع دیرہ اسماعیل خان ہے، اور ساتھ ضلع ٹانک جسے 9 نومبر 1901ء کو وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے لوگوں کے احتجاج کے باوجود زبردستی نئے بنائے گئے صوبے سرحد کا حصہ بنایا ۔ لوگ اس فیصلے کے خلاف آج تک سراپا احتجاج ہیں۔ تھل کا جغرافیہ ایک مثلث کی شکل میں ہے جس میں میانوالی ، بھکر ، خوشاب، جھنگ، لیہ اور مظفر گڑھ کے اضلاع آتے ہیں ، بھکر اور ضلع کا حصہ زیادہ ہے جبکہ مظفر گڑھ تھل کا ٹیل ہے، تھل کے لوگ سیدھے سادے اور سچے لوگ ہیں ان میں انسانوں سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔