وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نواز شریف اور زرداری دونوں سلیکٹڈ تھے ، خارجہ پالیسی کے فیصلے خود کرتا ہوں ، فوج کا مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ۔ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ ہر صورت پورا کریں گے ۔ وزیراعظم کا عزم اچھی بات ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سوا دو سالوں میں گھر ملنے کی بجائے تجاوزات کے نام پر گھر گرائے گئے اور نوکریاں دینے کا وعدہ پورا تو کیا ہوا بلکہ لاکھوں لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ابھی حال ہی میں ریڈیو پاکستان ، پی ٹی وی اور اسٹیل مل سے ہزاروں ملازمین بر طرف کر دیئے گئے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں معاشی قتل کو جسمانی قتل سے بھی زیادہ جرم سمجھا جاتا ہے ، وزیراعظم کا عزم اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کی امید بر نہیں آئی ، لوگوں نے تبدیلی کے نام پر ووٹ دیئے تھے اور تبدیلی بھیانک شکل میں سامنے آئی ہے، وزیراعظم کو ان تمام امور پر غور کرنا ہوگا کہ غریبوں کی مشکلات کتنی بڑھ گئی ہیں ۔ وزیراعظم نے طویل انٹرویو دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ دو نئے شہر بسائے جا رہے ہیں جس سے بے روزگاری کے خاتمے میں مدد ملے گی لیکن وزیراعظم نے اپنے آئندہ منصوبوں میں صوبے کی کوئی بات نہیں کی حالانکہ صوبے کا وعدہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اپنے پارٹی منشور میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ صوبہ محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کرنے کے موقع پر اس کیلئے تحریری معاہدہ بھی کر چکے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان کو اپنے مشیروں پر انحصار کرنے کی بجائے حالات و واقعات کا خود جائزہ لینا چاہئے ، پاکستان کے کروڑوں لوگوں خصوصاً نوجوان ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے نفرت کرتے ہوئے عمران خان کو آگے لائے تھے ، آج لوگ ایک بار پھر کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ان سے تو پہلے والے ٹھیک تھے ۔ ہمیں یا کسی دوسرے شخص کو شوق نہیں ہے کہ وہ خوامخواہ حکومت پر تنقید کرے اور نہ ہی وہ کسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں لیکن جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ سچائی اور ایمانداری سے کہا جا رہا ہے کہ لوگوں کے خواب بکھر گئے ہیں اور امید کے بندھن ٹوٹ چکے ہیں ۔ اس ساری صورتحال کو وزیراعظم خود دیکھیں مختلف علاقوں کا دورہ کریں ۔ عمران خان نے دوسرے علاقوں کیلئے کیا کرنا تھا ، میانوالی کے لئے بھی کچھ نہیں کیا ۔ ان کے مقابلے میں سید یوسف رضا گیلانی نے اپنا عرصہ اقتدار کے دوران ملتان اور وسیب کو بہت کچھ دیا ۔ اب عمران خان ، عثمان خان بزدار اور مخدوم شاہ محمود قریشی کی شکل میں سرائیکی وسیب ہی بر سر اقتدار ہے مگر لوگوں کو مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں ملا ۔ عمران خان کو بر سر اقتدار لانے میں وسیب کا بہت حصہ ہے ، مرکز اور صوبے میں وسیب کے ووٹوں سے تحریک انصاف بر سر اقتدار ہے ، خیبرپختونخواہ کی حکومت کو بھی ٹانک اور ڈی آئی خان کے لوگوں نے بھرپور ووٹ دیئے ، وسیب کی بہتری کی امید پر مولانا فضل الرحمن جیسے طاقتور لوگ بھی ناکام ہو گئے اور تحریک انصاف کامیا ب ہوئی مگر ڈی آئی خان ،ٹانک کے لوگ بھی سراپا احتجاج ہیں ۔ ، وسیب کے دوسرے علاقوں کی طرح ملتان میں بھی بڑے بڑے برج الٹ گئے ، مگر آج ملتان حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے ۔ پی ڈی ایم نے ایک دن کے جلسے کا اعلان کیا تھا مگر حکومت کی غلط پالیسی کی وجہ سے یہ جلسہ چار دنوں تک پھیل گیا ہے ، حکومت نے تین دین پہلے کنٹینر منگوائے اور جلسے کی مجوزہ جگہ قلعہ کہنہ قاسم باغ کے چاروں طرف ر نصب کر دیئے ، اس کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر احتجاج ہو رہے ہیں ، پچھلے دنوں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے موسیٰ گیلانی سمیت متعدد لوگوں کو گرفتار کر کے حوالات کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ، دوسرے دن عدالت نے ضمانت لے لی اور وہ ہیرو کے طور پر رہا ہوئے اور حکومت کے خلاف سخت غم و غصہ دیکھنے میں آیا ۔ حکومت نے یہ کیا کہ قلعہ کہنہ قاسم باغ کو چاروں طرف سے سیل کرنے کے ساتھ اسٹیڈیم میں پانی چھوڑ دیا ، دوسرے دن پی ڈی ایم کے سینکڑوں کارکنوں نے قلعہ کہنہ قاسم باغ پر دھاوا بول دیا اور گیٹ سے کنٹینر کو کرین کے ذریعے ایک طرف ہٹانے کے ساتھ گیٹ کے تالے توڑ دیئے اور اسٹیڈیم کے اندر داخل ہو گئے ۔ اس دوران پولیس سے بھی مڈ بھیڑ اور جھڑپیں ہوتی رہیں ۔ پولیس نے سابق وفاقی وزیر عبدالرحمن کانجو ، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے تینوں بیٹوں سمیت سینکڑوں افراد کے خلاف مقدمات درج کر لئے اور کارکنوں کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں اور پی ڈی ایم کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ صرف ملتان تک محدود نہیں بلکہ وسیب کے تمام شہروں میں مارے جا رہے ہیں ، اس حد تک کہ دھریجہ نگر جو کہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے وہاں بھی پولیس نے گھیرا ڈالا ہوا ہے۔ اس ساری صورتحال کے دوران جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا عبدالغفور حیدری اور دیگر اکابرین نے ملتان پہنچ کر سید یوسف رضا گیلانی و دیگر عمائدین سے ملاقاتیں کر کے اس عزم کا اظہار کیا کہ 30 نومبر کو ملتان میں ہر صورت جلسہ ہوگا۔ دوسری طرف حکومتی اکابرین جن میں فردوس عاشق اعوان ، شیخ رشید اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے پی ڈی ایم کے مجوزہ جلسے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن جتنا زور لگا لے این آر او نہیں ملے گا ۔ کل 30 نومبر کو پی ڈی ایم کے ہونے والے جلسے کے سلسلے میں ملتان میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں ، مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ، بلاول بھٹو نے ملتان میں ہونے والی گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کٹھ پتلیاں جیالوں سے خوفزدہ ہو کر بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہیں ، جلسہ ہر صورت ہوگا۔ ڈپٹی کمشنر ملتان عامر خٹک نے اس ضمن میں کہا ہے کہ کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل کرانے کیلئے تین سو سے زائد افراد کے اجتماعات پر پابندی ہے ، شہریوں کی زندگی عزیز ہے، اسی بناء پر ہم زیادہ افراد کے اجتماعات پر پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرائیں گے ۔ یہ تمام صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ حکومت خصوصاً عمران خان خود اس ساری صورتحال کو دیکھیں کہ جو لوگ سابقہ حکمرانوں کے خلاف عمران خان کے ساتھ باہر آئے تھے، آج وہ عمران خان کے خلاف باہر کیوں آ رہے ہیں ؟