وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے محض پہلے بارہ دنوں میں وزیراعظم عمران خان کاوزارت خارجہ اور پاکستان کی مسلح افواج کے جنرل ہیڈ کواٹر کا تفصیلی دورہ اور طویل مشاورتی نشست کو ایک خوشگوار آغاز قراردیاجاسکتاہے۔ پاکستان کو جس طرح کے داخلی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے ان سے نبردآزما ہونے کے لیے تمام اداروں بلکہ اسٹیک ہولڈرز کا ایک صفحے پر جمع ہونا اور باہمی اشتراک سے حکمت عملی مرتب کرنا ناگزیز ہوچکاہے۔ ملک کو درپیش کوئی ایک چیلنج ہوتو حکومت تنہا مقابلہ کرے۔ معاشی طور پر ملک دیوالیہ ہوچکا ہے۔ بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے۔ سیاستدانوں کا ایک ہجوم ہے جو پانچ برس تک الیکشن کا انتظار کرنے اور حکومت کوخدمت کا موقع دینے کی بجائے ابھی سے توپ وتفنگ سنبھال کر میدان میں اتر چکا ہے۔ میڈیا نے حکومت کو دوہفتے بھی پورنے نہیں کرنے دیئے کہ حساب کتاب شروع کردیا۔ دہشت گردی کے سائے پوری طرح چھٹے نہیں۔کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات کا امن حریفوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ گھاؤ لگانے اور گھائل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھگانے کے لیے چین کے ماہرین تک کوہدف بنایاجارہاہے۔ اسی پس منظر میں حکومت اور قومی سلامتی کے متعلقہ اداروں کو مسلسل مشاورت اور اشتراک کے ساتھ چلنا ہوگا تاکہ اندرونی اور بیرونی خطرات کا پامردی سے مقابلہ کیاجاسکے۔ وزیراعظم عمران خان کے مشاورتی اجلاس اس لیے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ ایران اور جاپان کے وزراء خارجہ پاکستان تشریف لاچکے ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ کا دورہ بھی متوقع ہے۔ بھارت کے ساتھ بات چیت کا ڈول ڈالنے کی خاطرسازگار ماحول کی تیاری جاری ہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی افغانستان کے دورے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ وہ عندیہ دے چکے ہیں کہ افغانستان کے حوالے سے امریکی خدشات کے ازالے کے لیے ان کی حکومت توجہ دے گی۔خارجہ محاذ پروزیراعظم عمران خان کی حکومت کو علاقائی ممالک اور بالخصوص ایران اور سعودی عرب اپنی طرف راغب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ تزویراتی طور پر پاکستان کی حمایت یا گہری دوستی دونوں ممالک کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ سعودی عرب پاکستان کا قابل اعتماد دوست اور حلیف رہاہے۔ آج بھی پندرہ لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں برسرروزگار ہیں ۔ایران ایک ایسا ہمسائیہ ملک ہے جس کی نو سو کلومیٹر طویل سرحد بلوچستان جیسے حساس علاقے سے ملی ہوئی ہے۔ایران نواز لابی بھی پاکستان میں کافی بااثر اورطاقت ور ہے۔ان دونوں ممالک کے مابین عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ میں سیاسی، سفارتی اور معاشی بالادستی کے قیام پر زبردست مسابقت پائی جاتی ہے۔ سعودی عر ب کے ساتھ گزشتہ دس برسوں میں تعلقات میں کوئی گرم جوشی نہیں رہی۔ آصف علی زرداری کی پیپلزپارٹی کی حکومت کو وہ ایران نوازقراردیکر اور کنی کتراتے تھے۔ نون لیگ کے دور حکومت میں بھی تعلقات کافی سردمہری کا شکار رہے۔ سعودی شاہی خاندان کی خواہش اور مطالبہ تھا کہ پاکستان یمن کے قبائل کے خلاف سعودی عرب کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑاہو۔نون لیگ کی حکومت سعودی عرب کی حمایت کا ایشوپارلیمنٹ لے گئی جہاں ایک قراداد کے ذریعے سعودی عرب فوج بھیجنے سے روک دیاگیا۔یہ قرارداد سعودیوں کے لیے کسی بم شل سے کم نہ تھی۔انہیں پاکستان کا یہ طرزعمل بہت ناگوار گزرا۔ پارلیمنٹ میں جو بحث ہوئی اسے سعودیوں نے اپنی توہین قراردیا کیونکہ انہیں اندازہ نہیں کہ جمہوریت کی برکت سے پارلیمانی لیڈر گفتگو میں سفارتی نزاکتوں کا خیال نہیں رکھتے۔ اتفاق سے تحریک انصاف نے بھی سعودی عرب فوج بھیجنے کی بھرپور مخالفت کی ۔گزشتہ برس عسکری تربیت کاروں کا ایک دستہ سعودی عرب بھیجاگیا تو پی ٹی آئی نے ایک بار پھر مطالبہ کیا کہ یقینی بنایاجائے کہ یہ لوگ کسی دوسرے ملک کے خلاف جنگی کارروائیوں میں شریک نہ ہوں۔چنانچہ سفارتی حلقوں میں تحریک انصاف پر ایران نواز پارٹی کا لیبل لگادیاگیا۔ عمران خان الیکشن سے قبل سعودی عرب عمرہ کی ادائیگی کے لیے تشریف لے گئے تو انہوں نے سعودی عرب کے چند اخبارات کو انٹرویوز میں کہا کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد وہ دونو ں ممالک کے روایتی تعلقات میں مزید وسعت لائیں گے۔چنانچہ الیکشن کے بعد سعودی سفیر وہ پہلے غیر ملکی سفارت کار تھے جو عمران خان کو الیکشن میں کامیابی پر مبارک باددینے بنی گالہ تشریف لائے۔جہان ان کی چائے اور بسکٹ سے تواضع کی گئی۔بعدازاں سعودی فرمان روا اور ولی عہد نے مبارک باد کے فون کیے۔ غیر ملکی شخصیات یا ملکوں کے ساتھ تعلقات پاکستان میں ایک حساس موضوع رہاہے۔ حکومتوں اور اداروں کے مابین ترجیحات اور حکمت عملی پر کافی اختلاف رائے رہا ہے۔ اختلاف بعض اوقات ایک حد میں رہا اور کبھی کبھی اس نے تصاد م اور محاذ آرائی کی شکل بھی اختیار کی۔اس کشمکش سے ملکی مفادات کو ناقابل تلافی زک پہنچی اور پاکستان کو خارجہ محاذ پر تنہائی کا شکار ہونا پڑا۔ اب ایک عرصے بعد تمام اداروں کے مابین ایک ابھرتاہوا تال میل نظر آتاہے جو کہ ایک خوش کن خبر ہے۔ سیاسی حکومت کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان میں گزشتہ سات دہائیوں کے دوران جس طرح کی گورننس رہی اور نظام میں جو خرابیاں درآئی ہیں انہیں دور کرنے اور تمام اداروں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اس نے مشاورت کی جو پہل کی ہے وہ ہی درست سمت پہلا قدم ہے۔ پیچیدہ مسائل حل کرنے کے لیے ملک کے اندر اعلیٰ سطحی فورمز بھی موجود ہیں جنہیں سرگرم کرنے کی ضرورت ہے۔قومی سلامتی کمیٹی اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کا دفتر ایسے فورمز ہیں جن سے ماضی میں کوئی قابل ذکر کام نہیں لیاگیا۔ دنیا کے جمہوری ممالک‘ جن میں امریکہ بھی شامل ہے عسکری سفارت کاری(Military diplomacy)کو بروئے کار لاتے ہیں۔کئی ایک اہم معاملات میں جب اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے جب ہاتھ کھڑے کردیتی ہے تو امریکی جنرلوں کو میدان میں اتارا جاتاہے۔ بالغ نظر سیاستدان اور قومیں اپنے اداروں کی طاقت سے استفادہ کرتی ہیں نہ کہ ان کے مدمقابل کھڑی ہوتی ہیں۔ادارتی مسابقت دنیا بھر میں معمول کی کارروائی ہے۔ ولی نصر پاکستان اور افغانستان پر سابق امریکی صدر بارک اوباماکے نمائندہ خصوصی رچرڈ ہالبروک کے معاون خصوصی تھے۔ انہوں نے فارن پالیسی میں لکھا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، ہالبروک کے دفتر اور پینٹاگان کے درمیان افغان امور پر نہ صرف نقطہ نظر اور حکمت عملی کا اختلاف تھا بلکہ سب کے سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنا نقطہ نظر منوانے کی سرتوڑ کوشش کرتے۔اس وقت کے صدر اوباما کو متاثر کرنے کے لیے ہر ایک محکمہ اور وزیر سرتوڑ کوشش کرتا۔ جمہوریت کی روح ہی اختلاف رائے میں مضمر ہے لیکن یہ اختلاف مضررساں نہیں ہونا چاہیے۔اسے ریاست کی جڑیں کھوکھلی کرنے اور ذاتی مفادات کی آبیاری کے لیے استعمال نہیں کیاجانا چاہیے۔وزیراعظم عمران خا ن سے امید ہے کہ وہ ملک کے اندر ادارتی ہم آہنگی پیداکرنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔