کھرا اور کھوٹا الگ کر دیا جائے گا۔ چھانٹیوں کا موسم آنے والا ہے۔ حق و باطل کا آخری معرکہ اپنے ابتدائی مرحلے میں داخل ہونے کو ہے۔ ایسے میں صفوں میں کسی منافق، کمزور ایمان والے یا متزلزل یقین رکھنے والے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اللہ نے اس وقت ایسا ہی کیا جب غلبے کیلئے اصل معرکہ شروع ہوا، تو مسلمانوں کی صفوں کو خالص کر دیا۔ مسلمانوں سے میری مراد اُمتِ مسلمہ ہے جو سیدنا ابراہیم ؑ کے دن سے آج تک چلی آ رہی ہے اور جس کا نام اللہ نے ’’مسلم‘‘ رکھا ہے۔ سیدنا ابراہیم ؑسے لے کر رسول اکرمﷺ کی بعثت سے قبل تمام انبیاء اور رسول اپنی اقوام اور اپنے علاقوں کیلئے مبعوث کئے گئے، لیکن سیدالانبیائﷺ کی رسالت کے مخاطب تمام بنی نوع انسان ہیں۔ فرمایا ’’اے محبوب! ہم نے آپؐ کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘ (سبا: 28)۔ کمال دیکھئے کہ میرے اللہ نے ان تمام مذاہب کو جو کسی ایک کتاب پر رُک گئے تھے جیسے یہودی ’’تورات‘‘ اور عیسائی ’’انجیل‘‘پر تو انہیں اس توفیق سے محروم کر دیا کہ وہ اپنے جدِّ اعظم سیدنا ابراہیم ؑکو عطا کردہ نام ’’مسلم‘‘ استعمال کرتے، حالانکہ ان کے کسی نبی نے بھی انہیں سیدنا عیسیٰ ؑکے نام پر عیسائی یا حضرت یعقوبؑ کے بڑے بیٹے یہودہ کے نام پر یہودی کہلانے کیلئے نہیں کہا تھا۔ یہ قوم جسے آج ’’مسلمان‘‘ یا ’’مسلم‘‘ کہا جاتا ہے، اس کے ساتھ اللہ کا ایک وعدہ ہے اور اللہ نے قرآن پاک میں اس وعدے کو تین دفعہ دہرایا ہے، ’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (ﷺ) کو الہدیٰ اور دینِ حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے، اس کو پورے کے پورے دین پر‘‘ (التوبہ 33، الفتح 21، الصف 9)۔رسول اکرمﷺ کی بعثت اور دعوت کی تکمیل اسلام کے دین یعنی (Life Style) کے تمام ادیان یعنی دیگر لائف سٹائل پر غلبے سے ہو گی، جو اللہ کا وعدہ ہے۔ دین بنیادی طور پر طرزِ زندگی، طریقہ حیات اور لائف سٹائل کو کہتے ہیں۔ اس وقت دُنیا پر جو طرزِ زندگی یا لائف سٹائل نافذ ہے اس کی بنیادی خصوصیات میں سُودی عالمی مالیاتی نظام، قومی ریاستیں، سیکولر جمہوری اقدار کی بالا دستی، حقوقِ نسواں و حقوقِ انسانی کی آزادانہ تشریح اور مذہب کی ریاستی کاروبار سے علیحدگی شامل ہے۔ اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ دُنیا پر تمام نظام ہائے کار، طرزِ زندگی اور لائف سٹائل پر اسلام کا غلبہ قائم ہو گا۔ رسول اکرمﷺ کی وہ تمام احادیث جو اس دَور کے بارے میں خبر دیتی ہیں اور قرآن پاک کی وہ آیات جو اس خوشخبری کا اعلان کرتی ہیں، ان پر مبنی علم کو ’’علمِ آخرالزمان‘‘ کہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کا علم عیسائیت اور یہودیت میں بھی پایا جاتا ہے۔ اسے ایسکاٹالوجی (Eschatology) یعنی آخری زمانوں کا علم کہا جاتا ہے۔ تینوں ابراہیمی مذاہب کے علماء اس بات پر تقریباً متفق ہیں کہ ہم یا تو اس ’’آخرالزمان‘‘ کے دَور سے گزر رہے ہیں یا ہم اس کے دروازے پر پہنچ چکے ہیں۔ غلبے کی اس آخری جنگ میں کتب احادیث میں جن خطوں اور علاقوں کا تذکرہ ہے، ان میں خراسان، سندھ اور چین شامل ہیں۔ قدیمی خراسان تو افغانستان ہی کا وہ خطہ ہے جو آج بھی صدیوں سے یوں متحد اور تنہا چلا آ رہا ہے جیسے دریائے ایموں اور دریائے سندھ سرحد کی صورت اس کی حفاظت کے پہرے دار ہوں۔ اسی طرح قدیم جغرافیائی نقشوں کے مطابق وہ خطہ جسے سندھ کہتے تھے، وہ سیدالانبیاء ﷺ کے دَور میں موجودہ بلوچستان، سندھ اور پنجاب سے ہوتا ہوا شمال کی جانب دریائے سندھ کے کناروں تک جاتا تھا۔ اس سندھ سے متصل ایک وسیع علاقہ ’’ہند‘‘ کہلاتا تھا، جس پر کئی سو مہاراجے اپنے اپنے راجواڑوں پر علیحدہ علیحدہ حکومت کرتے تھے، لیکن ضرورت نے انہیں ایک ساتھ جوڑ کر رکھا تھا۔ ہند کے شمال میں ہمالیہ کے پار اگرچہ کہ پورا خطہ چین کہلاتا تھا، لیکن کشمیر کی سرحد سے لے کر موجودہ بنگلہ دیش کی سرحدوں تک تبت کے علاقے میں ’’توخان‘‘ بادشاہت قائم تھی، جبکہ مرکزی چین میں ’’تنگ‘‘ شاہی خاندان حکمران تھا۔ ہند، سندھ اور چین کے حوالے سے ایک ایسی حدیث ملتی ہے جس میں ان تینوں کا ایک ساتھ ذکر ہے۔ یہ ایک طویل حدیث ہے جو حضرت حذیفہ بن یمان سے مروی ہے۔ اور اس میں دُنیا بھر کے علاقوں میں خرابی، بربادی اور تباہی کا ذکر ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’سندھ کی خرابی ہند کے ہاتھوں اور ہند کی خرابی چین کے ہاتھوں ہو گی، آج سے صرف ستر سال قبل،کیا کوئی یہ تصور بھی کر سکتا تھا کہ سندھ یعنی پاکستان میں رہنے والے ہند یعنی بھارت سے لڑیں گے اور مسلسل لڑتے ہی رہیں گے۔ چین کے خلاف ایک عالمی محاذ بنے گا جو چین کی اقتصادی ترقی کو روکنے کیلئے جنگ پر آمادہ ہو گا۔ چار ملکوں کا یہ اتحاد جس میں امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت شامل ہیں، ان میں سرحدی سطح پر اگر کوئی ملک چین کے ساتھ جنگ میں کود سکتا ہے تو وہ بھارت ہی ہے۔ قدیم چین کی امن پسند حکومت کے بارے میں یہ پیش گوئی کہ وہ ایک دن یہ ایک جنگجو خطے ’’ہند‘‘ کیلئے خرابی اور بربادی کا باعث بنے گا، اس وقت ناممکن نظر آتی ہو گی۔ ہند پر 322 قبل مسیح سے 185 قبل مسیح تک 137 سال موریائی سلطنت قائم رہی تھی اور اشوک کے زریں دَور کے اثرات ابھی باقی تھے، جبکہ اسی ہند پر رسول اکرمﷺ کی آمد سے تھوڑا عرصہ پہلے کٹر ہندو گپتا سلطنت تیسری صدی عیسوی میں قائم ہوئی تھی اور آپؐ کی آمد سے دو دہائی قبل 550 عیسوی میں ختم ہو چکی تھی۔ ایسی مضبوط سلطنت کے بارے میںآپ ؐ نے فرمایا کہ چین اس کی تباہی کا باعث ہو گا، چودہ سو سال پہلے کوئی اس کا تصور بھی کر سکتا تھا۔ آج چین اپنی صدیوں کی خاموشی اور خواب سے ایسا بیدار ہو چکا ہے کہ پوری مغربی دُنیا اس کی معاشی ترقی سے خوفزدہ ہے۔ چودہ سو سال قبل رسول اکرم ﷺ کی پیش گوئی کے عین مطابق بھارت اور چین دونوں ایک دوسرے کے سامنے عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہوں گے۔ مسلمانوں کی چودہ سو سالوں کی تاریخ میں سے اگر موجودہ سو سال نکال لئے جائیں تو باقی ان تیرہ سو سالہ تاریخ میں کسی کو معمولی سا بھی اندازہ نہ تھا کہ ایک دن افغانستان جو رسول مقبولؐ کے زمانے میں خراسان کہلاتا تھا، ایک ایسی ناقابل تسخیر قوت بن کر اُبھرے گا کہ جنوری 1842ء میں عالمی طاقت برطانیہ، فروری 1989ء میں عالمی طاقت سوویت یونین اور جولائی 2021ء میں عالمی طاقت امریکہ ذِلّت و رُسوائی سے وہاں شکست کھائیں گی۔ اس خراسان کے خطے کے بہادروں کی جس طرح گزشتہ چالیس سال سے تربیت ہو رہی ہے اس کی وجہ بھی احادیث میں نظر آتی ہے۔آپ ؐ نے فرمایا، ’’جب کالے جھنڈے مشرق سے نکلیں گے تو انہیں کوئی چیز نہیں روک سکے گی حتیٰ کہ وہ ایلیا (بیت المقدس) میں گاڑ دیئے جائیں گے‘‘ (مسند احمد)۔ مشرق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا، ’’جب تم دیکھو کہ کالے جھنڈے خراسان کی طرف سے آئے ہیں تو ان میں شامل ہو جانا کیونکہ ان میں اللہ کے خلیفہ ’’مہدی‘‘ ہوں گے‘‘ (مسند احمد، مشکواۃ)۔ اس خطے کا تیسرا اہم ملک قدیمی سندھ یعنی وہ خطہ ہے جسے آج کل ’’پاکستان‘‘ کہتے ہیں، اس کے بارے میں فرمایا، ’’اس کی خرابی ہند سے ہو گی‘‘۔ حدیث کے مفہوم سے تو صرف ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہماری ’’شامت‘‘ آنے والی ہے، مگر کیوں؟ (جاری ہے)