ہماری شامتِ اعمال کیوں آئے گی۔ بحیثیت قوم ہم سے ایسا کون سا بڑا جرم سرزد ہوا ہے جس کی سزا ہمارا مقدّر ہو چکی ہے۔ سیدالانبیاء ﷺ کی حدیث کا یہ ٹکڑا ’’سندھ کی خرابی ہند‘‘ سے جب بھی ذہن سے ٹکراتا ہے یا آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو خوف کی ایک لہر پورے بدن اور روح میں دوڑ جاتی ہے۔ ہمارے اکثر علماء اس حدیث کی سند پر گفتگو کرتے ہوئے اسے کمزور اور ضعیف قرار دیتے ہیں، لیکن علامہ قرطبیؒ نے اپنی مشہور کتاب ’’التذکرہ باحوالِ موتیٰ و امورِ الآخرۃ‘ میں علامہ ابن جوزی ؒکی کتاب ’’روضتہ المشتاق و الطریق الی الملک الخلاق‘‘ کے حوالے سے اسے درج کیا ہے۔ علامہ احمد قرطبیؒ تیرہویں صدی عیسوی یعنی آٹھ سو سال قبل اور علامہ ابن جوزی ؒگیارہویں صدی عیسوی یعنی ایک ہزار سال قبل کے علماء میں سے ہیں۔ بعد میں آنے والے علماء خصوصاً حافظ ابن کثیرؒ اور امام سیوطیؒ نے نہ صرف اس حدیث کا تذکرہ کیا بلکہ اس میں درج ممالک کی تباہی کے بارے میں پیش گوئیوں کو دیگر احادیث سے بھی ڈھونڈ نکالا۔ گزشتہ ایک ہزار سال سے اس حدیث کے بارے میں بحث جاری ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں دُنیا کے حالات میں گروہ بندیاں، جنگیں اور علاقائی بالادستی کی دوڑ واضح ہوتی جا رہی ہے، تو محسوس ہوتا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے جہاں جہاں اور جس خطے یا ملک کے بارے میں جیسا بتایا تھا، ویسا ہی ہو رہا ہے۔ اس حدیث کے تناظر میں ہماری شامتِ اعمال کیوںاور کیسے؟ یہ شامتِ اعمال اس کائنات کے بارے میں اللہ کے بتائے ہوئے قانون اور اُمتوں پر عذاب و ثواب کی وجوہات کے عین مطابق آئے گی۔ اس دُنیا میں جتنے بھی انسان پیدا ہوئے ہیں، انہوں نے ایک دن اللہ کی طرف لوٹ جانا ہے اور ہر کسی نے اپنے اعمال کا علیحدہ تنہا جواب دینا ہے۔ فرمایا: ’’اور ان میں سے ہر شخص قیامت کے دن اللہ کے حضور پیش ہو گا اکیلا اکیلا‘‘ (مریم: 95)۔ لیکن قوموں اور ملِّتوں کے اجتماعی گناہوں کا حساب اللہ اسی دُنیا میں لیتا ہے اور سزا بھی یہیں دے دی جاتی ہے، بقول اقبال فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف کسی قوم کے اجتماعی گناہوں کی وجہ سے جب ان پر سزا کا حکم سنایا جاتا ہے تو پھر نیک و بد، قصور وار و بے قصور سب یکساں اس کی زد میں آتے ہیں۔ ’’ڈرو اس وبال سے جو تم میں سے صرف ظالموں ہی کو لاحق نہیں ہو گا‘‘ (الانفال:25)۔ ہم سے پہلے، بستیوں کی بستیاں اُجاڑ دی گئیں جن میں نیک اور بد دونوں شامل تھے۔ ایسا کیوں کیا گیا۔ اس لئے کہ ان قوموں کے لیڈر، رہنما، اور اہلِ طاقت لوگ جنہیں قرآن ’’الملائ‘‘ کہہ کر پکارتا ہے وہ اللہ کی نافرمانی اور برائی کا ارتکاب کر رہے ہوتے تھے مگر پوری بستی ان کے سامنے ہتھیار ڈال (Surrender) دیتی تھی۔ قومِ ثمود کے بارے میں اللہ فرماتا ہے، ’’اور شہر میں صرف نو شخص تھے جو ملک میں فساد کیا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیا کرتے تھے‘‘ (النحل: 48)۔ یہ نو لوگ جو لیڈر یعنی ’’الملائ‘‘ تھے جن کے اثرورسوخ یا خوف و لالچ کی وجہ سے بستی کے تمام لوگ ان کا ساتھ دیتے تھے، اس لئے سب کے سب شریکِ جرم ٹھہرائے گئے اور بستی نشانِ عبرت بنا دی گئی۔ بحیثیت قوم آج ہمارا حال بھی مختلف نہیںہے۔ دُنیا بھر کے مسلمانوں نے اللہ سے صرف ایک میثاق یا معاہدہ کیا ہوا ہے یعنی اللہ پر ایمان لانا اور نیک عمل کرنا ہے۔ یہ انفرادی معاہدہ ہے جو مراکش سے برونائی تک ہر مسلمان نے اپنے اللہ کے ساتھ کیا ہے اور اس کے بارے ان سے آخرت میں باز پُرس ہو گی۔ لیکن برصغیر پاک و ہند میں آباد مسلمانوں نے اللہ کے ساتھ ایک اور اجتماعی معاہدہ بھی کیا تھا۔ بحیثیت قوم و ملت ایک معاہدہ، کہ اگر ہمیں ایک خطہ زمین مل جائے، تو پھر ہم اللہ کے دین کو اس سرزمین پر نافذ کریں گے۔ ہماری تاریخ میں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ سیکولر لبرل مفکرین ہزاروں صفحات لکھ کر خود کو یا پاکستانی قوم کو دھوکہ تو دے سکتے ہیں لیکن اللہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ وہ دلوں کے حال جانتا ہے اور اسے علم ہے کہ قیام پاکستان کی فضا کیسی تھی، آرزوئیں کیا تھیں اور لوگ اس مملکتِ خداداد سے کیا توقع رکھتے تھے۔ ہماری حالت بنی اسرائیل جیسی تھی جسے اللہ نے فرعون کے بدترین عذاب سے نجات دلائی اور پھر ان سے کہا کہ ہم تمہیں بغور دیکھ رہے ہیں کہ تم اپنے اللہ کی اس نعمت کا کیسے شکر ادا کرتے ہو۔ شریعت کے وہ تمام احکام جو بنی اسرائیل کو دیئے گئے انہوں نے بھی ہماری طرح یعنی ’’پاکستانی قوم‘‘ کی طرح ان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، قرآن میں بتایا گیا ، ’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو نہیں مانتے‘‘ (البقرہ: 85)۔ ایسی منافقت کی سزا کے بارے میں اللہ نے اپنے ازلی ابدی قانون کے مطابق فیصلہ ان پر نافذ کر دیا ، ’’تو نہیں ہے کوئی سزا اس کی جو یہ حرکت کرے تم میں سے کہ دُنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں‘‘ (البقرہ: 85)۔ بنی اسرائیل کی طرح ذِلّت و رسوائی تو ہمارا مقدر اس دن سے بن چکی ہے جب ہم نے اس ملک میں اللہ کی شریعت کے نفاذ کو چار سو کے قریب جاہل اراکین پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا کہ وہ جس حصے کو چاہیں نافذ کریں یا جس کو چاہیں نہ نافذ کریں یا پھر اللہ کے ساتھ کئے گئے اس وعدے کا ٹھیکہ جرنیلوں نے لے لیا کہ ضیاء الحق آئے تو وہ بھی آدھا دین قابل نفاذ سمجھے اور مشرف آئے تو شریعتِ وجۂ تضحیک بن جائے۔ اہلِ نظر جانتے تھے کہ پوری قوم کو اس جرم کی بدترین سزا ایک دن ضرور ملنا ہے۔ اس لئے کہ ہماری قوم کے رہنما یعنی ’’الملائ‘‘ وہ ہیں جن کا دین کے ساتھ دُور دُور تعلق نہیں۔ آج اس سزا کی گھن گرج چاروں طرف سنائی دے رہی ہے اور اگر ہم اس کے مستحق ٹھہرے تو پھر ہم میں سے نہ کوئی پارسا و تہجد گزار بچے گا اور نہ کوئی مجرم اور قصور وار۔ یہ ہے اس حدیث کی موجودہ حالات پر تطبیق کہ سندھ کی خرابی ہند سے اور ہند کی خرابی چین سے۔لیکن یہ معرکہ چونکہ آخرالزما ں اور کائنات کے انجام سے پہلے اسلام کے غلبے کے معرکوں میں سے ایک معرکہ ہے اس لئے اس معرکے کی تیاری اور اس میں حصہ لینے والوں کے ایمان خالص کی پختگی کا بھی اہتمام ضروری ہے۔ حق و باطل کے معرکوں میں بالآخر وہی سرخرو ہوتے ہیں جن کا توکل اور ایمان کامل ہو۔ بدر کے یوم الفرقان میں اللہ دلوں کومضبوط کر دیتا ہے، اُحد میں متزلزل ایمان والوں کو رستے ہی سے واپس موڑ دیتا ہے۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ طالوت اور جالوت کے معرکے میں شدید پیاسی بنی اسرائیل کو ایک میٹھے دریا سے گزارتا ہے اور پانی نہ پینے کا حکم دے کر آزماتا ہے، جو حکم مانتا ہے، صرف وہی معرکے میں شامل ہوتا ہے۔ چالیس سالہ افغان جنگ میں اللہ نے خراسان کے باسیوں کے ایمان کو ٹھونک بجا کر دیکھا، حکمت یار سے احمد شاہ مسعود تک جو کوئی قبیلے، قوم اور علاقے کی محبت میں گرفتار تھا، اسے چھانٹ کر علیحدہ کر دیا اور فتح اس عمرِ ثالث ملا محمد عمرؒ کے ساتھیوں کو دی گئی کہ جس نے کہا تھا نہ ہم زمین کیلئے لڑ رہے ہیں اور نہ قومیت کیلئے۔ آخرالزماں کا سب سے بڑا معرکہ برپا ہونے جا رہا ہے، یہاں ایمانِ خالص بہت ضروری ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ ’’وہ گندگی کو پاکیزگی سے چھانٹ کر علیحدہ کر دیگا‘‘ (الانفال: 23)۔ سٹیج تیار ہو چکا ہے۔ دُنیا دو حصوں میں تقسیم ہونے والی ہے۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا، ’’لوگ دو خیموں میں تقسیم ہو جائیں گے، ایک اہل ایمان کا خیمہ جس میں بالکل نفاق نہیں ہو گا، دوسرا منافقین کا خیمہ، جس میں بالکل ایمان نہیں ہو گا‘‘ (ابو دائود، مستدرک، الفتن)۔ صف بندیوں کے اس موسم میں اپنا ٹھکانہ خود تلاش کر لو۔ اب وسیع النبیادی کے دن گئے، معرکوں کے دن آ گئے۔ (ختم شد)