قدرت بھی اب ہائوس آف شریف کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ لاہور میں بارش کیا ہوئی کہ اس بارش نے خادم اعلیٰ کے 10سالہ ترقی یافتہ دور کی چند گھنٹوں میں قلعی کھول کر رکھ دی لاہور شہر میں کشتیاں چلا کر لاہوریوں کو محفوظ مقامات پر لے جایا گیا۔ شہر لاہور کی معروف ترین شاہراہ مال روڈ پر لاہور ہائی کورٹ کی بلڈنگ اور جنرل پوسٹ آفس کے سامنے زمین دھنسنے سے سڑک پر خاصا بڑا گڑھا پڑ گیا یہ وہ جگہ ہے جس کو بتایا جا رہا ہے کہ اس جگہ سے اورنج ٹرین کا زیر زمین ٹریک گزرتا ہے زیر تعمیر ٹریک کی جگہ پر اتنا بڑا گڑھا پڑ جانا اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ شہر لاہور میں انڈر گرائونڈ ٹرین کے منصوبے میں مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے اور پھر خطرناک حد تک ناقص منصوبہ بندی کے ذریعے سرکاری سطح پر یقینا قومی سرمایہ برباد بھی کیا گیا ہے اور اس منصوبے میں لوٹ مار بھی ہوئی ہے اب اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ لاہور کی وسطی شاہراہ کے ساتھ ساتھ دیگر عمارتیں بھی محفوظ نہیں رہیں خادم اعلیٰ نے لاہور کو پیرس بنانے کا دعویٰ کر رکھا تھا ملک بھر کے وسائل شہر لاہور پر خرچ کر دیے گئے اس شہر کو میگا منصوبوں کا محور بنایا گیا میٹرو بس سروس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کر دیے گئے خادم اعلیٰ کی خدمت کے جہازی ساز کے اشتہارات ہر روز اخبارات کی زینت بنتے رہے ہم نے دیکھا کہ ہر سال اس موسم میں پانی میں ڈوبی لاہور کی شاہراہوں اور بستیوں میں خادم اعلیٰ ربڑ کے بوٹ پہن کر محض فوٹو سیشن کے لیے آ جاتے تھے اب اس سال وہ منظر سے غائب ہیں فرماتے ہیں کہ نگران حکومت کی غفلت ہے اور وہی اس کی ذمہ دار ہے خادم اعلیٰ کے دور حکومت میں شہر لاہور کی ترقی کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ اربوں اور کھربوں روپے کے منصوبے شروع کیے جاتے رہے مگر لاہور شہر کا سیوریج نظام ابھی تک وہی ہے جو کہ برطانوی گوروں کے دور کا بنا ہوا ہے آج لکشمی چوک دریائے راوی کا منظر پیش کر رہا ہے جو کہ ہم یہاں لندن میں بیٹھ کر اپنے ٹی وی پروگراموں میں دیکھ رہے ہیں۔ دکھ ہوتا ہے کہ شہر لاہور میں میٹرو بس اور اورنج لائن منصوبوں کی وجہ سے خوبصورت پارک اور کھیل کے میدان برباد کر دیے گئے ہیں میگا پراجیکٹ کے ملبے نے لاہور شہر کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور میں شہروں میں جدید ترقیاتی منصوبے ضرور ہونے چائیں لیکن ان منصوبوں کے آغاز سے پہلے عوامی مفادات کو اہمیت بھی تو دی جانی چاہیے۔ منظم طور پر سروے اور پھر شہر کی خوبصورتی کو ہر سطح پر اولیت ہونی چاہیے تھی لاہور کی تاریخی عمارتیں جو کہ قومی ورثہ ہیں ان کا بھر پور انداز میں خیال رکھا جانا بھی اس شہر کا تقاضا تھا۔ برطانیہ کے مختلف شہروں میں قدیم اور تاریخی عمارتوں کی حفاظت اور ان کی خوبصورتی کو برقرار رکھنا مقامی کونسلوں کی ذمہ داری ہوتی ہے صرف لندن ہی میں لگ بھگ 25سے بھی زائد مقامی کونسلیں اپنے قدیم ٹائون ہالز اور دیگر عمارتوں کو ہر حال میں محفوظ رکھتی ہیں پورا لندن شہر حتیٰ کہ دریائے ٹیمز کے نیچے تک انڈر گرائونڈ ٹرین سروس کے وسیع نیٹ ورک سے جڑا ہوا ہے یہاں اتنی بارشیں ہوتی ہیں مجال ہے کہ کوئی عمارت اور شاہراہ کبھی ان بارشوں سے متاثر ہوئی ہو یا لندن کا انڈر گرائونڈ ٹرین سسٹم کسی ناگہانی حادثے کا شکار ہوا ہو اس کی بڑی وجہ منظم منصوبہ بندی اور عوام کے تحفظ کو سو فیصد ترجیح دینا ان کی قومی پالیسی ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں ترقیاتی کاموں اور عوام کے سہولت کے لیے تیار کردہ منصوبوں میں کسی طرح سے بھی کرپشن کا عنصر پایا ہی نہیں جاتا نہ تو کسی تعمیراتی کمپنی کو کمیشن ملتا ہے اور نہ ہی کسی پسند کی کمپنی کو تعمیراتی ٹھیکہ دیا جاتا ہے مقامی کونسلوں کو وسیع پیمانے پر ترقیاتی فنڈز دیے جاتے ہیں عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کی منظوری کے بعد جو کہ نچلی سطح سے کونسلر کی حیثیت سے منتخب ہو کر مقامی کونسلوں میں آتے ہیں ان ہی کی نگرانی میں تمام منصوبے طے ہوتے ہیں۔ خود اندازہ کر لیں کہ لاہور کے طول و عرض میں اب تک 288ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی ہے جس نے پورے شہر کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے کہاں ہیں شہر لاہور کے میئر؟ کہاں ہیں شہر لاہور کے کونسلرز حضرات؟ مقامی حکومتوں کا تصور ہی نہیں ہے پورا لاہور شہر ڈوب گیا مگر ہائوس آف شریف کا جاتی امرا اور لاہور میں نیا تعمیر ہوا بلاول ہائوس اپنی شان و شوکت برقرار رکھے ہوئے ہے جس روز لاہور میں بارش ہوئی آصف علی زرداری بلاول ہائوس میں اور خادم اعلیٰ ہائوس آف شریف میں آرام فرما رہے تھے یہ ہیں وہ حکمران جو اب اپنی اولادوں کو اس قوم پر مسلط کرنے جا رہے ہیں افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ قوم پھر ان ہی حکمرانوں کو ووٹ دے کر اقتدار میں لانا چاہتی ہے۔ اب تو قدرت نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ حکمرانوں نے جمہوریت کے نام پر عوام کے ساتھ بار بار کھلواڑ کیا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے قومی خزانہ لوٹا ہے لوٹ مار کی خاطر ترقیاتی منصوبوں کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے محض دکھانے کے لیے عوامی نوعیت کے منصوبوں کا اعلان اور پھر ان منصوبوں کی تشہیر اشتہارات کے ذریعے یہ سب کچھ فراڈ ہے قوم لٹ چکی یا تو ڈوب چکی‘ اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لیں اور اپنی ہی صفوں سے اپنا قائد پیدا کریں جو کہ آپ کا حقیقی قائد بن کر مملکت پاکستان کو دنیا کے نقشے پر منفرد مقام دلوا سکے ایسا قائد نہ ہو کہ جو کہ قومی خزانہ لوٹ کر ملک سے ہی فرار ہو جائے اور لندن میں بیٹھ کر حیلے بہانے تلاش کر ے کہ میرا فیصلہ چند دنوں کے لیے روک لیا جائے۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ پاکستان کی کسی عدالت میں فیصلہ اس بنا پر روک دیا جائے یا مزید چند روز تک کے لیے موخر کر دیا جائے کہ کسی کی بیوی بیمار ہے یا کسی کا والد بیمار ہے قانون ہر کسی کے لیے برابر ہوتا ہے۔ یہ ہی تو دوہرا معیار ہے جو کہ اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر گیا ہے نیب اب قومی انتخابات کے انعقاد تک کسی بھی چور‘ ڈاکو یا کرپٹ آدمی کو گرفتار نہیں کرے گی یعنی اقتدار کے ایوانوں میں ہر بدعنوان آدمی با آسانی پہنچ سکتا ہے جب اقتدار میں آ جائے گا تو پھر استحقاق آڑے آ جائے گا۔ کوئی پوچھنے والا نہ ہو گا۔ برطانیہ سمیت ڈنمارک‘ نیوزی لینڈ ‘ فن لینڈ ‘ سویڈن ‘ سوئٹزرلینڈ اور ناروے ان ممالک میں مقامی حکومتوں کے علاوہ پارلیمانی نظام حکومت زبردست طریقے سے کام کرتا ہے۔ ان ممالک میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے خاص طور پر اس وقت فن لینڈ‘ ڈنمارک ‘ سویڈن اور سوئٹزر لینڈ میں کسی بھی سطح پر کرپشن کا کوئی وجود ہی نہیں مقامی حکومتیں نچلی سطح پر تمام ترقیاتی منصوبوں کی ذمہ دار ہیں اور ساتھ ساتھ پولیس کا بہترین نظام ہے جو کہ ان ہی حکومتوں کی زیر نگرانی کام کرتا ہے عدلیہ اور میڈیا ان ممالک میں اپنی منفرد حیثیت کی بنا پر اپنی مثال آپ ہے۔ پوری دنیا آج ان ممالک کے ماڈل کو اپنا رہی ہے کیا ایسا ممکن نہیں کہ اب پاکستان میں بھی فن لینڈ‘ ڈنمارک ‘ سوئٹزر لینڈ اور سویڈن جیسے ممالک کے مقامی حکومتوں اور عدالتوں کے بہترین نظام کو اپنانے کی ابتدا کر دی جائے تاکہ آئندہ کسی کو یہ جرأت ہی نہ ہو کہ میں نے لاہور کو پیرس بنا دیا۔