ایرانی تیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت برطانیہ کی معیشت میں جھونکا جارہا تھا تو دوسری طرف ایرانی مزدور اور عوام کی حالت زار قابل رحم ہوچکی تھی۔ ان حالات میں ڈاکٹر مصدق نے ایرانی تیل کو قومیانے کی تحریک کی سربراہی کی تو ساری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔جب جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ نے اینگلو ایران آئل اور آبادان آئل ریفائنری کو قومیا لیا توبر افروختہ برطانیہ نے آبادان ریفائنری بند کردی اور مغربی ممالک کو مجبور کردیا کہ وہ ایرانی تیل نہ خریدیں۔ یہاں امریکہ اس کھیل میں شامل ہوگیا۔ ڈاکٹر مصدق کو روس نواز کمیونسٹوں کی حمایت حاصل تھی ۔سرد جنگ کے گرم ماحول میں امریکہ نے حالات کا مکمل طور پہ فائدہ اٹھایا ۔ سی آئی اے کی مدد سے ڈاکٹر مصدق کا تختہ الٹ کر انہیں عمر بھر کے لئے نظربند کردیا گیا اور رضا شاہ پہلوی کو مسلط کردیا گیا جو امریکہ کے نائٹ کلبوں میں عیاشی کرتا پھر رہا تھا۔اس سے پہلے لیکن ایک اور کہانی شروع ہوگئی جو اس تحریر اور میری بے چینی کی بنیاد بنی۔ جب محمد مصدق کا تختہ الٹا گیا اور رضا شاہ پہلوی کو تخت پہ بٹھادیا گیا تو اینگلو ایرانی آئل کمپنی جس نے 1954ء میں نام بدل کر بجا طور پہ برٹش پٹرولیم رکھ لیا، اپنی پرانی پوزیشن بحال کرنے کی کوشش کی جس کی رو سے ایرانی تیل کی کشیدو فروخت پہ اس کا مکمل قبضہ تھا لیکن اب حالات بدل چکے تھے اور امریکہ اس کھیل میں شریک ہوچکا تھا۔ لہٰذا ایرانی تیل کی بندر بانٹ کے لئے ایک کنسورشیم Iranian Oil Participantsتشکیل دیا گیاجس نے ایرانی تیل کو پورے مغرب میں فروخت کرنا تھا اور جس میں شامل زیادہ تر امریکی کمپنیاں بدنامی کی حد تک معروف امریکی سرمایہ دار راک فیلر کی ملکیت تھیں۔برٹش پیٹرولیم کو اس کنسورشیم میں شمولیت پہ مجبور کردیا گیا لیکن حصہ بقدر جثہ کے مصداق برٹش پٹرولیم کا کوٹہ چالیس فیصد رکھا گیا۔ اس کنسورشیم میں جو سات بہنوں کے نام سے مشہور ہو ا، 1973 کے تیل کے بحران تک دنیا بھر کے تیل کے پچاسی فیصد ذخائر پہ قابض رہا ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کنسورشیم میں ، راک فیلر کی ملکیتی دو آئل کمپنیاں،اسٹینڈرڈ آئل آف نیوجرسی اور اسٹینڈرڈ آئل آف نیویارک بھی شامل تھیںجویکے بعد دیگرے اس آئل کمپنی میں ضم ہوگئیں جو اب ایکسون موبل کے نام سے معروف ہے۔ یہ وہی پرانی شراب ہے جو نئی بوتل میں مارکیٹ میںموجود ہے۔ غریب ممالک کے وسائل کو چوس کر اپنی تجوریاں بھرنا اور ان ملکوں کی معیشت پہ مکمل کنٹرول ان سرمایہ کار کمپنیوں کے خون میں شامل ہے۔ ایکسون موبل نے اپنے سرمایہ دارانہ مقاصد کی تکمیل کے لئے افریقہ کا رخ کرلیا۔تیل کی دولت سے مالا مال لیکن غریب ممالک جو اتنی سکت نہیں رکھتے کہ اپنے خزانے خود کھول کر استعمال کرسکیں ایک عرصے سے اس آئل کمپنی کے سرمایہ دارانہ استحصال کا شکار ہورہے ہیں۔چاڈ، گیانا،نائجیریا، پاپوا نیوگنی بالخصوص اس کا نشانہ ہیں کیونکہ تیل کے بڑے ذخائر یہیں پائے جاتے ہیں۔ ایک عرصہ تیل کی کشید کے بعد تو ان ملکوں کے حالات بدل جانے چاہئے تھے لیکن وہ بدترین ہوتے جارہے ہیں۔چاڈ میں جو وسطی افریقہ کا غریب اور کرپٹ ترین ملک سمجھا جاتا ہے،جب 2000ء میں تیل دریافت ہوا تو امکان ہوا کہ اب اس پسماندہ ملک کے بد نصیب عوام کی حالت بدل جائے گی۔لیکن کرپشن،غربت اور خراب جغرافیائی محل وقوع کے باوجود ایکسن موبل یہاں آن دھمکی اور چاڈ کے صدر ادریس دیبے کو مجبور کیا کہ وہ پہلے سے موجود تیل کمپنیوں کو ملک بدر کردیں ۔2003ء میں ایکسون موبل کے پدھارتے ہی گو سالانہ ریوینیو 9 ارب ڈالر ہوگیا لیکن ملک میں عام آدمی کی حالت بدتر ہوگئی اور کرپشن بڑھتی گئی حتی کہ 2004ء کے کرپشن انڈیکس میں چاڈ دوسرے نمبر پہ جبکہ اگلے ہی سال پہلے نمبر پہ آگیا ۔ورلڈ بینک نے رپورٹ لکھی کہ تیل کی دریافت اور کشید کے بعد ملک کے سیاسی حالات میں ابتری آگئی اور خانہ جنگی کے آثار پیدا ہوگئے۔آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔یہی حالات پاپوانیوگنی کا ہوا جہاں ایکسن موبل ایشیا پیسیفک کے سب سے بڑے ایل این جی اور تیل کے ذخیرے پہ کام کررہی ہے لیکن جہاں کی نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی پہ خندہ زن ہے۔ نیوگنی کی حکومت اور ایکسن موبل کے درمیان معاہدے کے مطابق اس ریوینیو سے جی ڈی پی کی شرح بلند ہونی تھی،زمین مالکان کو رائلٹی ملنی تھی اور عوام کا معیار زندگی بلند ہونا تھا لیکن ان میں سے کوئی وعدہ نہ صرف وفا نہیں ہوا بلکہ اس معاہدے کو ایکسون کی ویب سائٹ سے بھی ہٹا دیا گیا۔تیل کی تلاش کے دوران ہونے والے بہت بڑے حادثوں کا کوئی زرتلافی مقامی آبادی کو نہیں دیا گیا۔ حد تو یہ کہ 19 بلین ڈالر کے اس منصوبے کو امریکی قرضوں سے فنڈ کیا گیا۔آج نیوگنی کے عوام میں اس کمپنی کے خلاف باقاعدہ تنفر پایا جاتا ہے۔یہی حالات نائجیریا کے ہیں جہاں تیل کی دریافت سے قبل ملکی معیشت زراعت اور صنعت پہ استوار تھی۔ ملک میں کرپشن ، خانہ جنگی اور تشدد کے باوجود ایکسن موبل نائجیریا کے تیل میں غوطہ لگانے کود پڑی۔نائجیریا افریقہ کی تیسری بڑی معیشت بن گیا لیکن تیل پہ انحصار نے نہ صرف ملکی صنعت و زراعت کا بیڑہ غرق کردیا بلکہ اس کی شرح نمو بھی کم ہوگئی اور پینتالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے جاگری۔ماحولیاتی آلودگی اس کے علاوہ تھی جس کے سلسلے میں اس کمپنی کو کئی ممالک میںشدید تنقید کا سامنا ہے لیکن یہ صرف اصل جرم پہ پردہ ڈالنے کی سعی ہے ۔ اصل جرم تو بہت بڑا ہے اور وہ ہے مقامی آبادی کو نہ صرف ان منصوبوں میں شمولیت سے دور رکھنا، جس کا ابتدا میں وعدہ کیا جاتا ہے بلکہ اس ملک کو نہایت قلیل رائلٹی دیناجو زیادہ سے زیادہ دو فیصد ہوتی ہے۔ جس وقت گیانا میں ایکسن موبل نے پنجے گاڑے ، گیانا کے سابق وزیر منظور نادر نے جو بیان دیا وہ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایکسون موبل ہمیں اس رائلٹی سے بھی کم دے رہی ہے جو سٹی کونسل کی پارکنگ ڈیل یا قومی لاٹری ہمیں دے دیتی ہے۔ میں حکومت کے وزرا کے اس معذرت خواہانہ رویے سے دستبردار ہوتا ہوں جو ملک کے لوگوں کو کہتے ہیں کہ وہ ایکسون موبل پہ تنقید بند کردیں۔ہم ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ وہ ہمارے نجات دہندہ نہیں ہیں۔وہ تیل نکالنے شوق سے آئیں لیکن مالکوں کی طرح نہیں۔اپنے قدرتی وسائل کے مالک ہم ہیں وہ نہیں۔مجھے مصدق یاد آگئے جنہوں نے ایرانی پارلیمنٹ سے اپنے پہلے خطاب میں اینگلو پرشین آئل کمپنی کے لئے بعینہ یہی الفاظ اسی لہجے میں استعمال کئے تھے۔ آج ایکسون موبل تیس سال بعد پاکستان میں تیل کے سب سے بڑے ذخیرے کی کشید کے لئے قدم جمانے آ رہی ہے۔ مجھے عمران خان پہ اعتماد ہے کہ وہ اس کے ساتھ معاہدوں میں ملکی مفاد کو مد نظر رکھیں گے لیکن ان سرمایہ کار کمپنیاں اور ان کے عالمی سرپرست بڑے ظالم ہیں۔ یہ مصدق کو اٹھاپھینکتے ہیں اور رضا شاہ پہلوی کو لابٹھاتے ہیں۔