پاکستان کے ازلی دُشمن بھارت کی طرف سے ایک بار پھر پاکستان کی طرف جارحانہ روّیہ اختیار کرنے کے بعد پاکستانی قوم پھر متحد ہوگئی ہے۔ 28 فروری کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے، وزیراعظم عمران خان نے نئے سرے سے بھارت اور اقوامِ عالم کو باغیرت پاکستانی قوم سے متعارف کراتے ہُوئے کہا کہ ’’ موت کے بجائے غلامی ‘‘ کو چُننے والے ہندوستان کے آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ کے بجائے شیر میسور سُلطان فتح علی خان ٹیپو شہیدؒ ہمارے ہیرو ہیں جنہوں نے غلامی کو نہیں چُنا بلکہ وہ انگریزوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے تھے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ جناب عمران خان پوری قوم کی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ’’وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے مشترکہ پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہُوئے شیر میسور سُلطان فتح علی خان ٹیپو شہیدؒ کو پاکستان کا ہیرو قرار دِیا‘‘۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ’’ شیر کے انتخابی نشان ‘‘ والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نااہل صدر میاں نواز شریف تین بار پاکستان کے منتخب وزیراعظم رہے لیکن اُنہوں نے پارلیمنٹ کے اندر یا باہر اِس طرح کا اعلان کبھی نہیں کِیا‘‘۔ سلطنت میسور کے آخری فرمانروا سُلطان فتح علی خان ٹیپو تحریک آزادی ہند کے پہلے شہید تھے ، جنہوں نے انگریزوںکو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے لئے بھرپور جدوجہد کی ۔ وہ ایک غیّور مسلمان، جری مجاہد ،باہمت جرنیل اور عوام دوست حکمران تھے اور مذہبی تعصب سے پاک !۔ سُلطان فتح علی خان ٹیپو نے انگریزی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے فرانسیسی فوجی افسروں کی خدمات حاصل کیںاور اپنی ایک لاکھ فوج کو یورپی فوج کی طرز پر منظم کِیا ۔ وہ آخر دم تک انگریزوں سے لڑتے رہے اُن کا یہ مقولہ آج بھی بہادر مسلمانوں کے لئے مشعلِ راہ ہے کہ ’’ شیر کی ایک دِن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ‘‘۔ علامہ اقبال ؒنے کہا تھا کہ … ’’شیر مولا جُوید آزادی و مرگ ‘‘ …O… یعنی۔’’ آزادی پسند اللہ کا شیر۔ غلام رہنے کے بجائے موت کو قبول کرلیتا ہے ‘‘۔ یہ کریڈٹ ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ چیئرمین ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ جناب مجید نظامی کو دِیا جانا چاہیے کہ اُنہوں نے 4 مئی 1999ء کو لاہور میں اپنے بسائے ہُوئے ’’ ڈیرے‘‘ (ایوانِ کارکنانِ تحرکِ پاکستان ) میں سُلطان فتح علی خان ٹیپو شہیدؒ کا دو سو سالہ یوم شہادت منانے کے لئے ایک عظیم اُلشان تقریب کا اہتمام کِیا۔ ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری برادرِعزیز سیّد شاہد رشید کی دعوت پر مَیں بھی اُس تقریب میں شرکت کے لئے اسلام آباد سے لاہور گیا تھا۔ تقریب میں خانوادہ ٔ ،ٹیپو سُلطان شہید ؒ کے ایک فرد میجر (ر) محمد ابراہیم صاحب نے اپنی کتاب ’’ مردِ مومن ٹیپو سُلطان شہیدؒ ‘‘ کا ایک ایک نسخہ تقریب کے شُرکاء کو عنایت فرمایا ، مجھے بھی۔ مَیں نے سرسری نظر سے کتاب کو دیکھا ،اُس کے ایک صفحے پر میجر (ر) محمد ابراہیم صاحب نے لکھا تھا کہ ’’ حضرت سُلطان ٹیپو شہید کے مزار پر یہ شعر کندہ ہے … بہر تسخیرِ جہاں شُد، فتحِ حیدر آشکار! لافتی اِلاّ علی ؑ ، لاسَیف اِلاّذُوالفقار! …O… یعنی۔ ’’ دُنیا کے فتح کے لئے فتح حیدر کا ظہور ہُوا۔ حضرت علی ؑ سے بہتر کوئی جواں مرد نہیں اور اُن کی تلوار ذُوالفقار ؔسے بہتر کوئی تلوارنہیں ہے ‘‘۔معزز قارئین!۔ ذُوالفقار اُس تلوار کا نام ہے جو ’’پیغمبرِ اِنقلابؐ ‘‘ کو غزوۂ بدر میں مالِ غنیمت کے طور پر مِلی تھی۔ آپؐ نے اُسے اِستعمال کِیا پھر حضرت علیؓ کو دے دی تھی۔ 25 فروری 1969ء کو اللہ تعالیٰ نے مجھے لاہور میں ’’ فرزندِ اوّل‘‘ عطا فرمایا تو مَیں نے اپنے والد ِ محترم تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کی فرمائش پر اُس کا نام ذوالفقار علی رکھا ۔ پھر مَیں نے خود کو اُس وقت خوش بخت محسوس کِیا ، جب مَیں نے دو بار جمہوریہ تُرکیہ کے "Topkapi Museum"میں ’’ ذُالفقار علی ؑ ‘‘ کی دوبار زیارت کی ۔ ایک بار ستمبر 1973ء میں اپنے دو مرحومین صحافی دوستوں ، انتظار حسین اور سعادت خیالی کے ساتھ اور دوسری بار ستمبر 1991ء میں صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ۔ حضرت ٹِیپو سلطان شہید ؒمذہبی شعائر کے سختی سے پابند تھے ۔ اُن کے دَور میں سلطنتِ میسور میں ماہ رمضان کا بہت احترام ہوتا تھا ۔ اُنہوں نے گدّی نشینوں اور مجاوروں پر اپنے مُریدوں سے نذر و نیاز لینے پر پابندی لگا دی تھی اور اپنے دربار میں آنے والوں کو اپنے سامنے احتراماً سر جُھکانے سے منع کردِیا تھا ۔ سُلطان شہید نے عوام کی فلاح و بہبود پر بہت توجہ دی۔ کسانوں کو مالیہ معاف کِیا۔اُنہیں سرکاری زمین پٹّے اور ملکیت کی بنیاد پر کاشت کے لئے دی ۔ ہندوستان میں تجارتی و صنعتی ترقی کا پہلا قدم سلطان ٹیپو شہید ؒنے اٹھایا۔ اُنہوںنے فنِ جہاز سازی پر توجہ دی۔ مقناطیسی پہاڑوں سے جہازوں کو بچانے کے لئے لوہے کے بجائے تانبے کے پَیندوں کا استعمال شروع کرایا۔ ریشم کی صنعت کو ترقی دی ۔ گنّے، گندم، جَو اور پان کی کاشت کو فروغ دِیا۔ چِیڑ ، سال ،ساگوان ، سپاری ، صندل اور ناریل کے درخت اُگائے۔ شہتوت کے درختوں پر ریشم کے کیڑے پالنے کے لئے بڑے بڑے باغات لگوائے۔ سنِ ہجری کی جگہ سنِ محمدیؐ جاری کِیا اور نیا سِکّہ بھی۔ سُلطان شہید کو اسلامی علوم، کے علاوہ عربی ، فارسی، اردو، تامل ، کنڑی ، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اُنہوں نے فوجی قواعد و ضوابط پر فارسی زبان میں ’’ تُحفۃ اُلمجاہدین‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لِکھی۔ تقریباً 20 سال پہلے مئی 1999ء میں موجودہ چیئرمین "P.E.M.R.A" پروفیسر محمد سلیم بیگ اُن دِنوں ’’ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشنز اتھارٹی ‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل تھے ، جب اُنہوں نے مجھے ’’ تحفتہ اُلمجاہدین‘‘ مطالعے کے لئے دِی۔ (پھر وہ، مجھ سے اِدھر اُدھر ہوگئی)۔ اُس کے بعد مَیں نے جب بھی (4 مئی کو) ٹیپو سُلطان شہیدؒ کے یوم شہادت پر کوئی کالم لکھا تو، ہر چیف آف آرمی سٹاف (جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ ) سے بھی یہی درخواست کی کہ ’’ تحفتہ اُلمجاہدین‘‘ کسی نہ کسی لائبریری میں ضرور ہوگی تو اُس کا قومی زبان اردو یا اور علاقائی زبانوں میں ترجمہ کرانے کا اہتمام کریں تو یقینا وہ پاکستان کی مسلح افواج کے لئے راہنما ثابت ہوسکتی ہے ۔ (4 مئی 2017ء اور 5 مئی 2018ئ) کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں بھی ٹیپو سُلطان شہیدؒ کے بارے میں بھی میرا کالم شائع ہُوا تھا۔ حضرت ٹیپو سُلطان شہید ؒ کے بارے میں علاّمہ اقبالؒ نے فرمایا کہ … آں شہیدانِ محبت را، اِمام! آبرُوئے ہِند و چِیں و روم و شام! ازنگاہِ خواجۂ ؐبدر و حُنین! فَقرِ سُلطاں ، وارثِ جذبِ حُسین ؑ! …O… یعنی ’’ وہ( حضرت ٹیپو سُلطان شہیدؒ ) محبت کے شہیدوں کے امام ہیں ۔ہندوستان، چین ، روم اور شام کی آبرو ہیں ۔ سرکارِ دو عالمؐ کی نگاہِ فیض سے اُن میں سُلطان کا ’’ فقر ‘‘ اور جذب ِ امام حُسین ؑ ہے ۔اب مَیں محترم وزیراعظم عمران احمد خان نیازی سے مخاطب ہُوں۔ جنابِ والا!۔ آپ نے بھارت سمیت اقوامِ عالم میں نشر کردِیا ہے کہ ’’ حضرت ٹیپو سُلطان شہید ؒپاکستان کے ہیرو ہیں ‘‘۔ مرحبا !صد آفریں ! پاک فوج کا سب سے بڑا ۔اعزاز (نشان )ہے ’’نشانِ حیدر ‘‘۔حیدر کے معنی ہیں شیرؔ اور یہ حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا صفاتی نام ہے ۔ کیوں نہ آپ پہلی فرصت میں (4 مئی 2019ء کو) شیر میسور حضرت ٹیپو سُلطان شہیدؒ کے 220 ویں یوم شہادت پر اُن کی خدمت میں ’’ نشانِ حیدر‘‘ پیش کردیں ۔ اور ہاں ! ’’ 4 مئی 2018ء کو 219 ویں یوم شہادت پر (اُن دِنوں ) پروفیسر محمد سلیم بیگ نے "P.I.D"کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر کی حیثیت سے "Whatsapp" اور سوشل میڈیا پر بھی سُلطان فتح علی خان ٹیپو شہیدؒ کی آزادی کے لئے جدوجہد سے متعلق "Videos" ڈال دِی تھیں ، جس پر بھارتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بہت تنقید کی گئی تھی۔ جنابِ وزیراعظم!۔ اگر 4 مئی 2019ء سے پورا سال اندرون اور بیرون پاکستان’’ فرزندان و دُخترانِ پاکستا ن ‘‘ ٹیپو سُلطان شہیدؒ کی یاد منائیں گے تو، پاکستان کے دشمن تو، پھر بھی تنقید کریں گے؟۔ جان لینا چاہیے کہ ’’ اب بھارت کے ساتھ "Love–Hate Relationship"نہیں چلے گی؟ ۔