بلوچستان کا المیہ یہ نہیں کہ وہ پسماندہ اور غریب ہے، بلکہ بلوچستان کی اصل بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے بارے میں دیگر صوبوں اور مرکزی حکومت کے اربابِ اختیار اتنا بھی نہیں جانتے جتنا وہ بچپن میں پڑھائے جانے والے ’’کوہ قاف‘‘ کی پریوں اور جنّات کے بارے میں جانتے تھے۔ ایک زمانہ سے بلوچستان کے آفیسران کئی دن کی مسافت کے بعد اپنے معاملات اسلام آباد کے شاندار ایوانِ اقتدار کی راہداریوںمیں لے کر جاتے ہیںتو وہاںکی چکاچوند سے حیرت زدہ ان کی آنکھیں اس وقت مزید حیرت سے پھیل جاتی تھیں، جب انہیں احساس ہوتا کہ یہ حاکمانِ اسلام آباد تو ان کے بارے میں اتنا بھی نہیں جانتے جتنا وہ اپنی وسیع و عریض کوٹھی میں موجود سرونٹ کوارٹر کی حالت زار سے آشنا ہوتے ہیں۔ تیس سال سے زیادہ کا عرصہ مجھے ایسی لاتعداد میٹنگوںمیں شرکت کرتے ہوئے گذرا ہے، جہاں کسی بھی پراجیکٹ کی تفصیل بتانے سے پہلے شرکاء کو تمہید باندھ کر یہ بتانا پڑتا تھا کہ وہاں کی زمین کیسی ہے، پانی کسقدر ہے، کونسی قوم وہاں آباد ہے، بجلی کتنی دور ہے، سبزیاں اور پھل کہاں کہاں سے آتے ہیں، سکول کتنے فاصلے پر ہے، ٹرین کتنے دن بعد آتی ہے، بس دن میں ایک دفعہ چلتی ہے یا دو دفعہ اور اخبار شام سے پہلے کیوں نہیں مل سکتا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تو ابھی کل یعنی 1986ء کا واقعہ ہے کہ، میں بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی ایک پکنک پارٹی کے ساتھ کوئٹہ سے صرف سو کلومیٹر دور پنجرہ پُل کے قریب ’’بولان ندی‘‘پر گیا۔ یہ مقام بلوچستان کی واحد بڑی مرکزی شاہرہ پر واقع ہے جو اسے اسلام آباد، پنجاب، سرحد اور سندھ سے ملاتی ہے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ ریل کی پٹری بھی ہے۔ گاڑی خراب ہو گئی، بلوچستان کا مشہور فیچرنویس اور صحافی عرفان احمد بیگ میرا طالب علم تھا۔ میں نے اسے ساتھ لیا اور ایک گاڑی میںلفٹ لے کر ڈھاڈر پہنچا تاکہ کوئی مستری وغیرہ ساتھ لے کر آؤں۔ بمشکل تمام ایک مستری کو ساتھ لیا، اتنے میں شام ہو گئی۔ ہم جب واپس وہاں پہنچے تو گاڑی ٹھیک ہوچکی تھی اور سب لوگ طالبات کے اسرار پر کوئٹہ کی جانب روانہ ہو گئے تھے۔ اب ہم دونوں وہاں اکیلے تھے اور اگلی صبح تک کوئی بس نہیں مل سکتی تھی۔ تین مختلف ٹرکوں پر بیٹھ کر کئی گھنٹوں کی مسافت سے کوئٹہ تک کا فاصلہ طے کیا۔ یہ وہی بولان ہے جس کے بیچ میں ’’مچھ‘‘ کا علاقہ آتا ہے، جہاں گذشتہ دنوں’’ھزارہ‘‘ قبیلے کے گیارہ کانکنوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔یہ صرف 34سال پرانا واقعہ ہے اور آج بھی ان راستوں کی حالت زار زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ارباب ِاقتدار کی کم علمی تو ان کی رعونت کی وجہ سے ہے، لیکن گذشتہ بیس سالوں سے ایک ایسے پیشے نے عروج پکڑا ہے جو اپنے تئیں ہر سیاہ سفید کا علم رکھتا ہے، اسے پاکستان کے ہر بڑے مسٔلے کا ادراک ہے اوراس کے پاس ہر مسٔلے کا شاندار حل بھی موجود ہے۔ اربابِ اقتدار کے گریبان پر تو ہاتھ ڈالاجاسکتا ہے، گلہ کیا جا سکتا ہے ،لیکن یہ طبقہ تو خود کو علم کی ’’معراج‘‘ پر سمجھتا ہے اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ عام لوگ ان کے جھوٹ پر مبنی ہر فقرے کو سچ مانتے اور ان کی کم علمی کی بنیاد پر کیے گئے تبصرے کو حقیقت تصور کرتے ہیں۔ یہ میڈیا ہے اور بلوچستان کواس ’’جدید میڈیا‘‘ کی مرکزِ نگاہ بنے ہوئے تقریباً پندرہ سال ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے بلوچستان چونکہ ایک پُرامن خطہ تھا اور خوش قسمتی سے میڈیا کے لیے اس کے پاس کوئی ایسی خبر نہ تھی جس سے ٹاک شوز کا بازار گرم کیا جاسکے۔یہ پندرہ سال شورش، بدامنی اور میڈیا کے سال ہیں، ان پندرہ سالوں میں اخبارات میں لکھے گئے کالموں، ٹیلی ویژن پر کئے گئے پروگراموں اور سنجیدہ مضامین کی تعداد اٹھا کر دیکھ لیں، یہ سب ملا کربھی بلوچستان کے سرکاری ملازمتوں میں موجودہ پانچ فیصد کوٹے سے بھی کم بنتے ہیں۔ ان تمام کالموں اور ٹیلی ویژن پروگراموں میں بھی آپ کو دو طرح کی حیرتیں ضرور ملیں گی، ایک ان میں اکثر پروگرام یا کالم اس وقت لکھے گئے جب وہاں کوئی بم دھماکہ ہوا، لوگ اغواء ہوئے یا قتل و غارت ہوا، جبکہ دوسری حیرت اس سے زیادہ خوفناک ہے اور وہ یہ کہ ان خود ساختہ دانشوروں، ادیبوں، اینکروں کا مبلغ علم اس قدر سطحی ہوتا ہے کہ بلوچستان کی جناح روڈ کے ہوٹلوں پر ہونے والی سیاسی گفتگو اور عالمی منظر نامے پر چائے خانوں میں ہونے والے تجزیے بھی اس کے مقابلے میں عالمانہ محسوس ہوتے ہیں۔ ان میڈیا والوںمیں سے چند ایک ایسے ہیں جو انگریزی زبان کے شناور ہیں اور وہ عالمی میڈیا پر چھپنے والے تجزیوں کا ایک مکسچر بناتے ہیں، تھوڑی بہت مغربی مصنفین کی کتابوں سے چاشنی ڈالتے ہیں اور اس پر بلوچستان پر لکھی گئی کچھ کتابوں کی سرخی لگا کر ایک ’’شاندار‘‘ تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ ماہرین اپنی معلومات کو تازہ دم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوئٹہ کے کسی اخباری نمائندے سے گفتگو کر لیں گے یا اپنے جیسے کسی دوسرے ایسے ’’عالم‘‘ تجزیہ کار سے مدد لے لیں گے، جو عالمی اخبارات میں بلوچستان کا ماہر صرف اس لیے کہلاتا ہے کیونکہ وہ وہی کچھ لکھتا اور ویسا ہی لکھتا ہے جیسا مغربی میڈیا لکھوانا یا پڑھنا اور دیکھنا چاہتا ہے۔ان کے علاوہ کچھ ’’اردو میڈیم‘‘ ماہرینِ بلوچستان بھی ہیں۔ان میںپہلی قسم والوں کا علم بلوچستان کے بارے میں ایک خاص نکتہ نظر کے صحافیوں یا سیاسی رہنماؤں کی گفتگو سے اخذ کردہ ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری قسم کے ’’اردو میڈیم‘‘ ماہرینِ بلوچستان وہ ہیں جو بلوچستان میں سرکاری سطح پر کام کرنے والی ایجنسیوں کی اکٹھی کردہ معلومات کو اپنے انداز میں عالمی اور علاقائی صورتحال سے جوڑ کر ایک واقعاتی ذخیرہ بنا لیتے ہیں اور جب کبھی کوئی سانحہ پیش آجائے تو عمرو عیار کی طرح زنبیل سے وہ ذخیرہ شدہ معلومات نکال کر اسے تازہ تبصرے کے طور پر پیش کر دیتے ہیں۔انہیں اندازہ تک نہیںہے کہ ان تمام سرکاری ایجنسیوں کی معلومات بھی جن لوگوں کی مرہونِ منت ہیں وہ ایسے ’’لوکل لوگ‘‘ ہیں جواپنے مفادات کی وجہ سے ان سرکاری ایجنسیوںسے جڑے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کو جاننے، اس کے مسائل کا ادراک حاصل کرنے، اس پر تجزیہ پیش کرنے کے لیے ہر پہلو پر علم حاصل کر نے کی محنت شاید ہی کوئی کرتا ہے۔ گذشتہ سالوں میں میری اپنی ناقص رائے میں، صرف ایک شخص ’’حبیب اکرم‘‘ مجھے ایسا نظر آیا جو ہر تعصب سے بالاتر ہو کر، بلوچستان کے بارے میں تحریر کرتا ہے، اگرچہ بہت کم کرتا ہے۔ جن لوگوں کو میں نے پڑھا اور سنا ہے ان میں کسی دوسرے کو ایسی جانفشانی سے بلوچستان کے زمینی حقائق جانتے ہوئے نہیں دیکھا، ہو سکتا ہے اور بھی ہوں لیکن ان کو نہ جاننا میری اپنی کم علمی بھی ہوسکتی ہے۔ گذشتہ چند دنوں سے پاکستان کے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں پر ’’مچھ‘‘ میں جاںبحق ہونے والے ھزارہ قبیلے کے گیارہ افراد کے بارے میں تبصرے پڑھے اور دیکھے تو میرایہ یقین اور بھی پختہ تر ہوتا گیا کہ جس طرح پاکستان کے دیگر ادارے ایک خوفناک تباہی کی جانب مسلسل بڑھتے چلے جا رہے ہیں ویسے ہی ہمارا میڈیا اپنے سطحی پروگراموں ، جذباتی تبصروں، بغیر تحقیق تجزیوں اور وقتی نوعیت کے مباحث کی وجہ سے بدترین گہرائی کی طرف پھسلتا چلا جا رہا ہے۔ میڈیاکا المیہ باقی اداروں سے زیادہ خوفناک اس لیے بھی ہے کہ میڈیا اس بات کو تسلیم کرنے کو تیارہی نہیں ہے کہ وہ کسی طور غلط سمت کی جانب روانہ ہے۔ اپنی پینسٹھ سالہ زندگی میں سب سے پہلے شاعری کی اور پھر ٹیلی ویژن ڈرامہ کی دنیا میں داخل ہوا، دونوں کا زوال اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا، بیوروکریسی میں اس وقت آیا جب ابھی اس میںٹمٹماتی ہوئی روشنی موجود تھی، لیکن اپنے سامنے اسے سیاسی گروہ بندی کے بدترین زوال سے دوچار دیکھا۔ زمانہ طالب علمی میں نظریاتی سیاست سے وابستہ ہوااور پھر اسی سیاست کو ذاتی و گروہی مفادات کے اندھے کنویں میں غرق ہوتے دیکھا۔ میڈیا جس سے وابستہ ہوئے ٹھیک انیس سال ہوچکے ہیں ، اب شایداس کا زوال دیکھنا باقی ہے۔(مچھ واقعہ پر تفصیلاً گفتگو کل کروں گا)