فیڈرل ایمپلائز ہائوسنگ اتھارٹی کے رہائشی منصوبے ناقص پلاننگ اور بدعنوانی‘ محدود استعداد کار کے باعث انتہائی سست روی کا شکار ہو گئے ہیں۔ ملک بھر میں سرکاری حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کو گھر فراہم کرنے کے لیے فیڈرل ایمپلائز ہائوسنگ سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اس مقصد کے لیے حکومت کے سرکاری وسائل کے علاوہ سرکاری ملازمیں نے اپنی عمر بھر کی کمائی بھی انویسٹ کر رکھی ہے مگر اتھارٹی کے اہلکاروں کی کرپشن سے نہ صرف منصوبے تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ جو منصوبے مکمل ہو چکے ہیں ان کا قبضہ بھی مالکان کو نہیں دیا جارہا جس کا ثبوت 2013ء سے مکمل پڑے 17ہزار فلیٹس کا قبضہ مالکان کو نہ ملنا ہے۔ سینٹ کی ذیلی کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کے اجلاس میں بھی ایف جی ای ایچ اے میں 7.5 ارب روپے کی خطیر رقم کی کرپشن کا معاملہ بھی سامنے آ چکا ہے۔ یہ اتھارٹی میں کرپشن اور سرخ فیتے کا ہی کمال ہے کہ ملک بھر کے 26 ہزار درخواست دہندگان ادائیگی کے باوجود اپنے گھروں سے محروم ہیں۔ اسی طرح ایل ڈی اے کا19 برس پہلے شروع کیا گیا ایونیو ون منصوبہ تاحال مکمل نہیں ہو سکا۔ بہتر ہوگا حکومت ایف جی ای سی ایچ کے ساتھ ایل ڈی اے کی سوسائٹی کی تکمیل میں تاخیر کی تحقیقات کروائے اور ذمہ داران کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کے ساتھ عوام کو بروقت گھروں اور پلاٹس کی فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ عمر بھر کی کمائی جمع کروانے والوں کا اپنے گھر کا خواب پورا ہو سکے۔