تاریخی کتابوں میں وسیب کو سپت سندھو یعنی سات دریائوں کی زمین کہاجاتا ہے۔مگر حالت یہ ہے کہ وسیب کو قابل کاشت تو کیا زیر کاشت رقبے کے لیے بھی نہری پانی میسر نہیں۔جونہی فصل خریف کی بوائی کا سیزن شروع ہوتا ہے ہر طرف سے العطش العطش کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی و ریسرچ فخر امام خود مثالی کاشتکار ہیں ان کو تمام صورتحال کا علم ہے اس کے باوجود وہ خامو ش ہیں۔کاشت کاروں کے ایک وفد نے ملاقات پر بتایا کہ کپاس کی کاشت کا سیزن شروع ہونے کے باوجود ملتان زون کی ششماہی اور سالانہ نہروں کو پانی کی سپلائی بحال نہ کی جا سکی۔ جس سے کپاس اور آم کے باغات علاقے میں بری طرح متاثر ہونے لگے ہیں۔ کپاس کی کاشت کے لیے زمین کی تیاری کے لیے پانی کے حصول میں مشکلات کا شکار متبادل ذرائع استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے۔ محکمہ آبپاشی کے کیلنڈر کے مطابق کاٹن بیلٹ کی شمشاہی نہروں کو 16اپریل کو چلانا ضروری ہوتا ہے لیکن رواں سال تمام نہریں بند ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سندھ طاس معاہدے کا سب سے زیادہ نقصان سرائیکی وسیب خصوصاً بہاولنگر ، بہاول پور ، رحیم یار خان ، لودھراں اور ضلع وہاڑی کو ہوا ۔ ستلج دریا خشک ہونے سے پانی کا لیول جو تیس فٹ پر تھا ، سے کم ہو کر ستر اَسی اور بعض جگہوں پر سو فٹ سے بھی زائد نیچے چلا گیا ۔ زمینداروں کو دو دو اور تین تین مرتبہ ٹیوب ویل کے نئے بور کرانے پڑے مگر پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ کنویں اور نلکے بھی جواب دے گئے ، بہاولنگر کے بہت سے علاقوں میں پینے کا پانی تک ختم ہو گیا ۔لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ، صورت حال اتنی خراب ہوئی ہے کہ ضلع بہاولنگر کی منڈی صادق گنج اور کچھ دوسرے علاقوں کے بڑے بڑے زمیندار اب کراچی میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریائوں کی فروختگی کے بعد حکمرانوں نے دریائے سندھ کا پانی چناب اور راوی میں ڈالا اور مصنوعی طریقے سے میلسی ، بہاول پور ، رحیم یار خان اور بہاولنگر کے علاقوں کو سیراب کرنے کی کوشش کی مگر یہ مصنوعی آکسیجن کب تک زمین کو زندہ رکھ سکے گی ؟ اگر حکومت نے بھارت سے مذاکرات کرکے ستلج کیلئے پانی حاصل نہیں کیا تو پھر یہ ایک دریا ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب کی موت بھی واقع ہو جائے گی۔ بہاولنگر سب سے زیادہ متاثرہ ضلع ہے ۔ مجھے بہاولنگر کے دوستوں نے بتایا کہ تقسیم کے بعد بہاولنگر کو بند گلی یاد دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے ،جبکہ اس سے پہلے یہاں خوشحالی ہی خوشحالی اور ہریالی ہی ہریالی تھی ۔ اب خوشحالی کی جگہ بدحالی نے ڈیرے ڈال لئے ہیں اب وسائل کم اور مسائل زیادہ ہو گئے ہیںاس لئے ضروری ہے کہ ستلج کو زندہ کرکے ستلج ویلی تہذیب کو موت کے منہ میں جانے سے روکا جائے ،یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پانی کی کمی سے بہاولنگر کا بہت بڑا کینال سسٹم برباد ہو رہا ہے ۔یہاں کینال کے تین ڈویژن مثلاً صادقیہ کینال ڈویژن ، فورڈ کنال ڈویژن اور ہاکڑہ کینال ڈویژن کی بڑی نہریں پوراسال چلتی رہتی تھیں ، اب ان میں بمشکل چند ماہ پانی رہتا ہے اور پانی کا لیول خطرناک حد تک نیچے چلا گیا ہے جس کے باعث یہ علاقہ کربلا کا منظر پیش کر رہا ہے ، پانی کے مسئلہ پر سب سے زیادہ لڑائیاں بہاولنگر اور بہاول پور میں ہو رہی ہیں ، پانی چوری کی وارداتیں بھی اس علاقے میں زیادہ ریکارڈ کی گئی ہیں۔ ستلج ایک دریا نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام بھی ہے ۔ ریاست بہاول پور میں نہری نظام سے قبل آبادی کم اور رقبے زیادہ تھے ۔ ریاست کے انگریز پولیٹیکل نمائندے کرنل منچن نے ریاست کیلئے آبادکاری کے منصوبے بنائے ۔ دریائے ہاکڑہ خشک ہوا تو کمی کسی حد تک ستلج نے پوری کی اور ستلج پر ہیڈورکس سلیمانکی ، اسلام اور پنجند بنائے گئے ۔ ان ہیڈورکس کی تعمیر کیلئے نواب آف بہاولنگر نے ریاست کے اہم ضلع بہاولنگر کو رہن رکھ کر بینک کے معرفت انگریز سرکار سے قرض حاصل کیا ۔ ہاکڑہ خشک ہوا اس کی کمی کسی حد تک ستلج نے پوری کی اب ستلج بند ہوا ہے تو اس کی کمی کون پوری کرے گا؟ ریاست بہاول پور کے بعد بہاولنگر کی بجائے منچن آباد کو ضلعی حیثیت حاصل تھی ۔ کرنل منچن کے نام سے موسوم منچن آباد کی بنیاد 1867ء میں رکھی اور یہ شہر تین سالوں میں یعنی 1870ء مکمل ہوا ، یورپین طرز پر بسائے گئے منچن آباد سڑکیں بازار اور گلیاں سیدھی بنائی گئیں ۔ شہر کے چار دروازے بہاولپوری ، بیکانیری ، لاہوری اور دہلی دروازوں کے نام سے موسوم ہوئے ۔ بہاولنگر کو نظامت کا درجہ حاصل ہوا تو منچن آباد کی ضلعی حیثیت ختم ہوئی ۔ منچن آباد کے قدیم لوگ اب بھی پرانے وقتوں کو یاد کرتے ہیں ۔تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں ، ہزاروں مسائل اور ہزاروں دکھ ہیں ، کس کس کا ذکر کریں۔ میانوالی میں پانی کے بڑے بیراج موجود ہیں مگر وہاں بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے۔اور ڈ یرہ اسماعیل خان جو کہ دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے وہاں بھی لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ڈی آئی خان اورٹانک کو اُن کے حصے کا پانی آج تک نہیں مل سکا ۔ بھٹو دور میں معمولی حصہ ملا مگر ضیاء الحق دور سے لے کر آج تک صرف وعدے ہوتے آ رہے ہیں ، مشرف دور میں لفٹ کینال کا منصوبہ بنا مگر وہ آج تک نہیں بن سکی ۔اسی طرح تھل اور چولستان آج بھی پیاسا ہے ، دامان کے لوگ بھی پانی پانی کر رہے ہیں ، آج جبکہ عنان اقتدار میانوالی اور ڈی جی خان کے ساتھ ہے اور آج بھی اگر وسیب کو پانی کا حصہ نہیں ملتا تو تاریخ عمران خان اور عثمان خان بزدار کو معاف نہیں کرے گی ۔وقت بہت تھوڑا ہے تین سال سیاسی لڑائیوں میں گزار دئیے گئے کوئی کام نہیں ہوا ۔ تبدیلی چہروں کا نام نہیں بلکہ تبدیلی وہ ہے جو نظر آئے ۔ افسوس سناک صورتحال یہ ہے کہ ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں اور زرعی ٹیوب ویلوں کے ٹیرف میں اضافہ سے بھی پانی مہنگاکر دیا گیا ہے۔ پانی کی قلت کا معاملہ صرف ملتان تک محدود نہیں بلکہ پورے وسیب میں یہی صورتحال ہے ۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے کاشتکار اپنی جگہ رو رہے ہیں حالانکہ وزیر اعلیٰ اور وزیر آبپاشی کا تعلق ڈیرہ غازی خان ڈویژن سے ہے۔پورے سرائیکی وسیب سے پانی پانی کی آوازیں آ رہی ہیں ۔