شعر‘ غم کی اتھاہ گہرائی‘ حزن و ملال کی گہری تاریکی اور اعلیٰ درجے کی دلی اور روحانی خوشی کی سرزمین سے پھوٹتے ہیں۔ عربوں کے ضمیر میں‘ زبان و بیان کی چاشنی‘ فصاحت و بلاغت ‘ حسن تمثیل اور شعر دانی گھلی ہوئی تھی۔ عہد نبویؐ میں شعر و ادب کی ایک ہلکی سی جھلک گزشتہ کالم میں بیان ہوئی۔ حضرت حسان بن ثابتؓ شاعر رسول کہلائے۔ عبداللہ بن رواحہؓ سید الشعراء کا خطاب پاتے ہیں تو کعب بن مالکؓ کو شاعر جہاد کا درجہ دیا گیا۔ یہ تووہ بڑے اور اہم نام ہیں جو باقاعدہ شاعر تھے اور اپنی شعر دانی کے جوہر کی بدولت ادبی محاذ پر اسلام کی خدمت کی۔ ورنہ تو عربوں میں یہ عالم تھا کہ ہر شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت فی البدیہہ اپنے جذبات کا اظہار شاعر میں کرنے پر قادر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول کریمؐ کا وصال مبارک ہوتا ہے تو شدت غم کے جذبات کو بیشتر صحابہؓ اور صحابیاتؓ شعر کے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی جنہوں نے اس سے پہلے کبھی شعر نہ کہے تھے لیکن سرکار دو عالم کا ظاہری آنکھ سے اوجھل ہو جانا ایک ایسا عظیم سانحہ تھا کہ جذبات و احساسات کی دنیا میں ایک طوفان برپا کر گیا اور شعر رواں ہو کر آنسوئوں کی صورت بہہ نکلے۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے تاریخ کے اس نازک موڑ پر بصیرت سے بھر پور چند ایسے فصیح و بلیغ جملے کہے کہ صحابہ پر جو ہیجانی کیفیت طاری تھی وہ پرسکون ہو گئے۔ انہیں سرکار دو عالمؐ کے وصال کا یقین آ گیا۔ غم و اندوہ کی اس کیفیت میں پروقار انداز میں اپنے آپ کو ثابت قدم رکھنے والے یار غار حضرت ابوبکر صدیقؓ آخر رسول خداؐ کے ساتھ ایک گہرا روحانی اور قلبی رشتہ رکھتے تھے۔ تدفین رسولؐ کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے اپنے دلی جذبات کو ان اشعار کی صورت میں بیان کیا ؎ اے آنکھ گریہ کراور اس سے ملوک نہ ہو ایسے سردار کے شایانِ شان ہے کہ اس پر روئیں! اب زندگی کی کیا صورت ہے کہ وہ محبوب تو کھو گیا جو تمام حاضرین صحبت کے لئے وجہ زینت تھا وہ تو جاتا رہا۔ اے کاش ہم سب کو موت آ جاتی‘ اور سب کے سب اسی ہدایت یافتہ کے ساتھ ہوتے‘‘ایک اور جگہ غم و الم کے جذبات کا شعری اظہار کچھ یوں کیا ۔ اے عتیق تیرا محبوب تو سپرد خاک ہو گیا اب تو اکیلا رہ گیا اور تھکان اور تعجب تجھ پر طاری ہے‘‘ ارویٰ بنت عبدالمطلب دل گرفتہ ہو کر اپنے غم و الم کا اظہارکرتی ہیں۔ یہ ایسی مصیبت ہے جس نے مجھے پست کر دیا۔ میری عظمت سست کر ڈالی اور مجھے بوڑھا کر دیا۔ یارسول اللہؐ آپ ہماری امید گاہ تھے۔ آپؐ ہمارے حق میں مہربان تھے۔ رحیم تھے۔ میں رسول اللہؐ کی وفات پر نہیں روئی میں تو اس فتنہ و ہنگامہ پر روئی ہوں جو آپ کے بعد برپا ہونے والا ہے۔ صفیہ بنت عبدالمطلب گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنے دلی جذبات کو اشعارمیں یوں پروتی ہیں۔ محمدؐ رسولؐ کیا چلے گئے ہماری تو متاع لٹ گئی! مجھے اپنی جان پر افسوس ہے، میں نے اس شخص کی طرح شب بسر کی جس سے سب کچھ چھن گیا ہو اور وہ رنج و غم میں رات بھر جاگتا رہا ہو۔ وہ حجرے ویران ہیں جہاں میرے حبیبؐ رہتے تھے وہ خالی ہو چکے ہیں ۔اس حادثہ نے دل کو اتنا دکھی کر دیا ہے کہ جی بیٹھ رہا ہے!ایک اورصحابیہؓ ہند بنت حارث کا جگر سوز مرثیہ دیکھئے۔ اے آنکھ! ایسی فیاضی سے آنسو بہا جیسے ابرباراں مینہ برساتا ہے۔ مجھے ایک المناک خبر پہنچی ہے کہ آمنہ کے برکت والے فرزند جاتے رہے ہیں۔ وہ صاحب یمن و برکت۔ اب ایک قبر میں ہیں۔ ان پر خاک کا لحاف ڈال رکھا ہے۔ صحابیہ عاتکہؓ بنت زید وصال نبیؐ پر رنج و غم سے نڈھال ہیں ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں اور دلی احساسات اس مرثیے میں ڈھلتے جاتے ہیں۔ ہم آپؐ کو اس طرح کھو بیٹھے جیسے پانی کو زمین کھو بیٹھے۔ آپؐ چودھویں کے چاند تھے۔ایسا نور تھے کہ اس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ عزت والے معبود کی جانب سے آپ پر کتابیں اترتی تھیں۔ اے آنکھ اچھی طرح رو کہ رونا ہی شفا ہے، اس لئے رونے میں کمی نہ کر۔ ایک اورصحابی عبداللہ بن انیس رسول اکرم کےؐ بچھڑ جانے پر رنج و غم سے نڈھال ہیں اپنے غم کا اظہار اس مرثیے میں کرتے ہیں۔ ’’موت کی خبر دینے والے نے صبح کو ہمیں آنحضرتؐ کے وصال کی خبر دی۔ یہ وہ خبر تھی جس سے کان بہرے ہو جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو قتل کر دینے سے اگر کسی مرنے والے کی زندگی واپس آ سکتی تھی تو میں اپنے آپ کو قتل کر دیتا۔ لیکن موت کو دفع کرنے والا دفع نہیں کر سکتا۔ حضرت ابو سفیان حضورؐ کے رضاعی بھائی بھی تھے اس حوالے سے آپؐ کا رشتہ حضور اکرمؐ سے بہت قلبی اور محبت والا تھا انہوں نے اپنے رنج و غم کا اظہار ان اشعار میں کیا ؎ میں جاگ رہا ہوں اور رات ہونے میں نہیں آتی ہاں مصیبت زدہ کی رات لمبی بھی ہوا کرتی ہے اس روز ہماری مصیبتوں کی انتہا ہو گئی جب لوگ یہ کہنے لگے کہ رسول اللہ بلالئے گئے معلوم ہوتا تھا زمین پر بھونچال آ گیا ہے اور زمین اندر دھنس جائے گی شاعر رسول حضرت حسان بن ثابتؓ نے اپنے ممدوح کے وصال پر رنج و غم سے لبریزکئی مرثیے کہے۔ کہا جاتا ہے کہ وصال نبی ؐ کے بعد حسان بن ثابتؓ ایسے خاموش ہوئے کہ پھر کچھ نہ کہہ سکے۔تاہم برسوں بعد حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمر فاروق ؓکی شہادت پر انہوں نے اشعارکہے تھے۔ جن سے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے۔ کیا میں آپؐ کے بغیر مدینہ میں لوگوں کے درمیان رہ سکوں گا؟ اے کاش صبح صبح مجھے کالے ناگوں کا زہر پلا دیا جاتا! میرا چہرہ آپ کو مٹی سے بچائے ۔ کاش میں آپ سے پہلے دفن کر دیا جاتا۔ ( اس کالم کا مواد مصنف شریں زادہ خدوخیل کی کتاب عہد نبویؐ میں شعرو وادب سے لیا گیا۔)