مئی 2014ء کو جب پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نئی دہلی کے راشٹرپتی بھون یا صدارتی محل میں بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف بررادی کی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد ہوٹل پہنچے، تو لابی میں چند لمحوں کی ملاقات کے دوران میں نے ا ن سے گزارش کی تھی کہ چونکہ تاجکستان، اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکوکے تعاون سے معروف صوفی بزرگ میر سید علی ہمدانی کی 700 سالہ تقریبات کا انعقاد کر رہا ہے ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ دونوں بھارت اور پاکستان بھی اسکا حصہ بن جائیں۔ اگلے دن دونوں وزراء اعظم کی د و طرفہ ملاقات طے تھی۔ میرے اندازہ کے مطابق اعتماد سازی کے قدم کے طور پر کشمیر میں اسکے اچھے اثرات رو نما ہوتے۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ اکثر سیاستدانوں کی طرح میاں صاحب کی یادداشت اور توجہ کا دورانیہ نہایت ہی کم ہے اور ایسی کسی تجویز کی افادیت یا اسکے محرکات ان کو گوش گزار کرانا نہایت ہی پیچیدہ عمل ہے۔ پاکستانی سیاستدان ویسے بھی کسی بھی ایسی تخلیقی اعتماد سازی یا موقعہ و محل کا استعمال کرکے سیاسی یا سفارتی مراعات یا رعایت حاصل کروانے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔ ایران کے شہر ہمدان میں پیدا ہوئے میر سید علی ہمدانی نے وسط ایشیاء کو اپنا وطن بنایا اور یہیں سے ہی انہوں نے کشمیر کا دورہ کرکے اسلام کی ترویج و تبلیغ کی۔ پورے جنوبی ایشیاء میں کشمیر واحد خطہ ہے، جہاں اونچی ذات کے ہندو یعنی برہمن جوق در جوق اسلام کی پناہ میں آگئے۔ اقبال نے فارسی شاعری میں اپنے متعلق کہا ہے۔ تنم گْلے ز خیابانِ جنتِ کشمیر، دل از حریمِ حجاز و نوا ز شیراز است ۔ مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمے بینی، برہمن زادہء راز آشنائے روم وتبریز است ۔ میر سید علی ہمدانی تین بارکشمیر کے دورے پر آئے۔ دوسری بار انہوں نے ڈھائی سال کشمیر میں قیام کیا۔ ان کی قیام کی جگہوں پرآج بھی کشمیر میں خانقاہیں قائم ہیں، جو اس زمانے میں ایک طرح کے اسلامک سینٹرز تھے۔ اقبال نے ہمدانی، جنہیںکشمیر میں عرف عام میں شاہ ہمدان کہتے ہیں، کے بارے میں کہا ہے۔ سیدالسادات ، سالار عجم، دست او معمار تقدیر امم، یعنی سیدوں کے سید اور عجم کے سردار۔ جس کے ہاتھ نے ایک قوم کی تقدیر بد ل ڈالی۔ مجھے یقین تھا کہ چونکہ 2014ء میں مودی کو سفارتی سطح پر آئوٹ ریچ کی سخت ضرورت تھی، وہ نواز شریف کی اس تحویز کو ہاتھوں ہاتھ لے سکتے تھے۔ کیونکہ چند ماہ قبل تک بطو ر گجرات کے وزیر اعلیٰ کے کئی ممالک میں ان کے داخلہ پر پابندی تھی۔ امریکہ تو ان کو ویزا بھی نہیں دے رہا تھا۔ چونکہ صوفی برزرگ سید ہمدانی کی آرام گاہ تاجکستان کے صوبہ کلوب میں واقع ہے، بھارت اور پاکستان کا تاجکستان اور یونیسکو کے ساتھ سال بھر کی تقریبات میں شرکت اور اسمیں کشمیر کو شامل کرنا ، مودی کے گلے اتر سکتا تھا۔ دونوں ممالک صوفی بزرگ کو وسط ایشیاء کے ساتھ اپنے آئوٹ ریچ کے آئکون یا علامت کے طور پر پروجیکٹ کر سکتے تھے۔ زمام کار سنبھالتے ہی مودی نے سفارتی آئوٹ ریچ کو مستحکم کرنے کیلئے سرحدی اور ساحلی صوبوں کی حوصلہ افزائی کرکے انکو ہمسایہ ممالک کے ساتھ اشتراک قائم کروانے میں کلیدی رول ادا کرنے کا مشورہ دیا۔ اپنے آبائی صوبہ گجرات کو انہوں نے جنوبی افریقہ اور مغربی ممالک کے ساتھ اشتراک و تعلقات قائم کرنے کیلئے استعمال کیا، کیونکہ ان ملکوں میں بھارتی نژاد گجراتیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ اسی طرح مشرقی صوبہ اڑیسہ کو انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور میانمار کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ سابق فارن سیکرٹری للت مان سنگھ کی قیادت میں کالنگا ڈائیلاگ کا ایک میکانزم ترتیب دیا گیا ۔ کیونکہ اس صوبہ کے انڈونیشا کے ساتھ تاریخی اور تہذیبی روابط رہے ہیں۔ اسی طر ح شمال مشرقی صوبوں میں علٰیحدگی کی تحریکوں، عسکری تنظیموں کی کثرت اور لاء اینڈ آرڈر کی ابتری کے باوجود ، مودی نے اس خطے کو اپنی ایکٹ ایسٹ پالیسی کا محور بنایا۔ ان صوبوں کی سرحدیں تجارت و نقل حمل کیلئے کھول دی گئیں۔ برما اور بنگلہ دیش کی سرحد پر ہر ہفتہ ان علاقوں میں بارڈر ہاٹ یعنی لوکل بازار لگتے ہیں۔سرحدوں کے آر پار 20کلومیٹر اندر تک جانے کیلئے کسی بھی اجازت نامہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ان ہی صوبوں سے گزرتے ہوئے کالا دان ٹرانسپورٹ کوریڈور برما کے روہنگیا اکثریتی صوبہ رکھائین کو بھارت کے ساتھ جوڑنے کا کام کرے گا۔ اسی طرح جنوبی بھارت میں تامل ناڈو کو ملائشیا اور سنگا پور اور اسکے اطراف کے ممالک کے ساتھ روابط کی ذمہ داری دی گئی۔ کیونکہ 13ویں صدی تک تامل ناڈو چولہ سلطنت کا پایہ تخت رہا ہے، اور مشرقی ایشیا کے ان ممالک تک اسکا دائرہ پھیلا ہوا تھا۔ (جاری ہے)