بھارت بہت تیزی سے ہندوریاست میں تبدیل ہو رہا ہے۔ بھارتی مسلمان شدت کے ساتھ عدم تحفظ کا احساس محسوس کر رہے ہیں۔ نریندر مودی نئے دور کا ہٹلر بننے کے طرف بڑھ رہا ہے۔ بی جے پی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا نہیں بلکہ تیسرے درجے کا شہری بنا کر دم لے گی۔ بی جے پی کے ارادوں کے سامنے بھارت کا حزب اختلاف کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کانگریس ایک برائے نام پارٹی بن چکی ہے۔ اگر کانگریس میں دم خم ہوتا تو وہ بی جے پی کی ہندوشاؤنزم کے خلاف بھرپور جدوجہد کرتی۔ اس جدوجہد میں کانگریس کا دوسرا جنم بھی ممکن تھا مگر گاندھی اور خاص طور پر جواہر لال نہرو کے بعد کانگریس زندہ اور متحرک جماعت نہیں رہی۔ آنجہانی اندرا گاندھی نے بھی اپنے والد کی سیاسی کمائی کھائی۔ اس میں بھی وہ سوچ، سمجھ اور سیاسی سوجھ بوجھ نہیں تھی جو ایک جماعت میں نئی روح بیدار کر سکے۔ اندار گاندھی کے بعد کانگریس نے لیڈرشپ کی لاش دیکر اقتدار حاصل کیا۔ اب کانگریس کے پاس دینے کو کچھ نہیں اس لیے وہ اقتداری سیاست سے آؤٹ ہو رہی ہے۔اگر کانگریس میں صرف جذبہ بھی ہوتا تو وہ بھارت کو بی جے پی کے حوالے ہونے نہ دیتی۔ کشمیر سے جس طرح برائے نام آئینی خودمختاری چھین کر اس کو ایک سرد جیل میں تبدیل کیا گیا اس پر بھی کانگریس کا کوئی کردار نہیں سامنے نہیں آیا۔ کانگریس بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کا بھی تحفظ نہیں کر پائی تو وہ پورے آئین کی حفاظت کس طرح کرسکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد شہریت کے سلسلے میں سیاہ قوانین بنانے شروع کیے۔ اس وقت بھارت میں CAB اور NRC کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں مگر ان مظاہروں میں حزب اختلاف کی جماعتوں سے زیادہ بھارت کے نوجوان اور طالب علم ہیں۔ وہ مخصوص ردعمل کے نتیجے میں باہر تو آئے ہیں مگر وہ کب تک جم کر لڑ پائیں گے؟ یہ بہت اہم اور بیحد مشکل سوال ہے۔ کیوں کہ اگر جدوجہد کسی جماعت کی طرف سے ہوتی ہے تو اس کا مکمل لائحہ عمل ہوتا ہے۔ حالیہ مظاہرے منظم حکمت عملی کے تحت نہیں ہو رہے۔ یہ مظاہرے کرنے والے لوگ جب تک میدان میں موجود ہیں تب تک موجود ہیں اور جب یہ چلے گئے تو یہ چلے جائیں گے۔ اس طرح بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہا پسند ہندو عزائم کے سامنے کوئی بھی سیاسی دیوار نہیں۔ بھارت میں کمیونسٹ پارٹی، عام آدمی پارٹی اور کسی حد تک کانگریس بھی احتجاج میں شامل ہیں مگر ان کے کارکنان مذکورہ احتجاج کا حصہ ہیں۔ جب کہ بھارت میں حزب مخالف کی لیڈرشپ اس احتجاج کی قیادت نہیں کر رہی۔ حالانکہ یہ ہزار یا لاکھ کا نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کا مسئلہ ہے۔ اگر بھارت میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھارت کے سیکولر آئین اور جمہوری نظام کو بچانے کے لیے سرگرم ہندو،سکھ اور عیسائی بھارتیوں کو فراموش بھی کردے تب بھی بھارت میں کروڑوں مسلمان موجود ہیں جو آج اپنے وطن میں محفوظ نہیں۔ بھارت کے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس کے مسلمان رہنما اور عالم ابوالکلام آزاد نے دہلی کی جامع مسجد پر دو قومی نظریے کی شدید مخالفت میں تقریر کی تھی اور بھارتی مسلمانوں سے کہا تھا کہ وہ ہندوستان کو چھوڑ کر پاکستان نہ جائیں۔ آج ابوالکلام آزاد سے اتفاق کرنے والے بھارتی مسلمانوں کے بچے اپنے بزرگوں کے غلط فیصلوں پر ناراض ہیں۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ قائد اعظم نے بالکل درست کہا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آج 72 برسوں کے بعد بھارت کے مسلمان شدت کے ساتھ محسوس کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ کا موقف درست تھا۔اگر اس وقت ہندوستان کے آدھے مسلمان تاریخ مسلم لیگ کا ساتھ دیتے تو آج بھارت نہ صرف اپنے مسلمان شہریوں بلکہ پورے خطے کے لیے عدم تحفظ کا سبب نہ بنتا۔ بھارت کے ہندو اکثریت سے مسلمان اقلیت کو حقیقی خطرہ تھا۔ اس خطرے کو قائد اعظم کی دور رس نگاہ دیکھ رہی تھی مگر اس دور میں جمہوریت اور سیکولرزم کے متوالوں نے اس حقیقی خطرے کی طرف دھیان نہیں دیا۔ حالانکہ علامہ اقبال نے واضح الفاظ میں برصغیر کے مسلمانوں کو بتایا تھا : ’’اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں/نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے/الیکشن، ممبری،کونسل ،صدارت/بچھائے خوب آزادی نے پھندے/میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ/نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے‘‘ اس دور میں جس طرح یورپ کے سیاسی فیشن کی تقلید کا کام شروع ہوگیا تھا علامہ اقبال نے اس کو سمجھ لیا مگر افسوس کہ کانگریس کے دام میں آنے والے ہندوستانی مسلمان اس حقیقت کو نہ سمجھ پائے۔ اس دور میں نئے سیاسی فلسفوں کا بہت تیز ریلا تھا۔ اس میں عام مسلمان تو کیا عالم، ادیب اور شاعر مسلمان بھی بہہ گئے۔ بھارت کے مسلمان نہ صرف اتر پردیش بلکہ پورے ملک میں اپنے انسانی حقوق حاصل کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں تو بھارت کے مشہور مسلمان فلمی اداکار بھی بھارت کے شہروں میں مکان یا فلیٹ لینے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بالی ووڈ کی مشہور داکارہ اور مشہور ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی کی بیٹی اور مشہور فلمی شاعر جاوید اختر کی جیون ساتھی شبانہ اعظمی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر شبانہ اعظمی بھی شہری حقوق سے محروم ہے تو عام بھارتی مسلمان کیا کرے گا؟بھارت کے عام مسلمان کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ جب بی بی سی کا نمائندہ اتر پردیش میں مسلمانوں سے ملتا ہے تو وہ روتے ہوئے بتاتے ہیں کس طرح ان کے بیٹے پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے؟ وہ بغاوت کا بینر اٹھا کر باہر نہیں نکلے تھے۔ وہ تو پرامن احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر آئے تھے مگر ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو کشمیری مسلمانوں کے ساتھ 72 برسوں سے ہوتا آ رہا ہے۔بھارت کی پولیس ان کی جمہوری آواز دبانے کے لیے بندوق کا استعمال کر رہی ہے۔بھارتی حکومت مسلمان شہریوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہی ہے جو فلسطین میں اسرائیلی حکومت مسلمان فلسطینیوں سے کر رہی ہے۔ بی جے پی حکومت مرحلہ وار بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک ہو رہا ہے اس کے خلاف یورپ اور امریکہ کی حکومتیں خاموش ہیں۔ مغربی ممالک کی حکومتیں صرف اپنے شہریوں کو ہدایات دے رہی ہیں کہ بھارت میں مظاہرے ہو رہے ہیں اس لیے مغربی شہری احتیاط سے کام لیں۔ اس وقت افسوس صرف مغربی ممالک کا نہیں بلکہ اقوام متحدہ پر بھی ہے کہ وہ بھارتی مسلمانوں کے انسانی حقوق کا تحفظ کرنے کے سلسلے میں کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔یہ دنیا جو شعور کے تقاضے ادا کرنے کے بجائے صرف یہ اپنے ملکی اور قومی مفادات کو دیکھ رہی ہے، اس دنیا میں ہمارے مسلمان ممالک بھی شامل ہیں۔ وہ بھی اپنے کلمہ گو بھائیوں کے لیے حق کی بات کہنے کے بجائے بھارت میں اپنے مالی مفادات کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس صورتحال میں بھارت کے مظلوم مسلمان کیا کریں؟ وہ انصاف کے لیے کس در پر دستک دیں؟ وہ کس سے کہیں کہ ان کے لیے حق کی آواز بلند کریں جو اپنے وطن میں جلاوطن انسانوں جیسے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔پاکستان اپنے حالات کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ پاکستان مودی کی ہندو قوم پرستانہ عزائم کی مذمت کرنے کے علاوہ اور کیا کرسکتا ہے؟مگر اپنے وطن میں جلاوطن بھارتی مسلمانوں کو یہ حقیقت سمجھنا ہوگی،جس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فیض احمد فیض نے کہا ہے: ’’تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا اور یہ سفاک مسیحا میرے قبضے میں نہیں اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں ہاں مگر تیرے سوا، تیرے سوا، تیرے سوا‘‘