پاکستان کا ہر مبصر، تجزیہ نگار، عسکری اُمور کا ماہر یہاں تک کہ تھوڑی بہت گفتگو کی اہلیت رکھنے والا سیاست دان گذشتہ ایک ماہ سے افغانستان کے بارے میں ایسے تبصرے کر رہا ہے، جیسے افغان طالبان نے امریکہ جیسی عالمی طاقت اور اس کے ہمرکاب اڑتالیس ملکوں کی عسکری قوت کو پاکستان کے مشوروں اور ہدایات سے شکست دی ہو۔ ہر اس شخص کی بھی زبان دراز ہے جو گذشتہ چند ماہ پہلے تک طالبان کو دُنیا کا بے وقوف ترین گروہ بتاتا تھا۔ بیس سال کی یادداشتیں اتنی کمزور بھی نہیں کہ انسان بھول جائے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کی شام جارج بش نے بغیر کسی تحقیق، یہ الزام عائد کر دیا تھا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملے کا اکلوتا ذمہ دار افغانستان ہے۔ پوری دُنیا اس بات پر یقین ہی نہیں کر رہی تھی کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ایک دہشت گردی کا واقعہ ہے، بلکہ وہ اسے ایک سازش سمجھتے تھے۔ صرف ایک ہفتے کے اندر سات سو کے قریب ایسے مدلل مضامین اخبارات میں چھپے جن سے یہ ثابت کیا گیا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر امریکہ کے اندر موجود کسی طاقتور گروہ کا کارنامہ ہے جسے ایئر کنٹرول سسٹم پر مکمل کنٹرول حاصل تھا،جس کی دسترس امریکہ کے سکیورٹی نظام تک بھی ہو سکتی ہے۔ عالمی طاقتیں جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے سانحے کو تو شک و شبے کی نظر سے دیکھتی تھیں، لیکن جیسے ہی اقوامِ متحدہ نے افغانستان پر حملے کی اجازت دی تو پوری عالمی برادری نے بیک زبان افغانستان کو مجرم گردانتے ہوئے اعلانِ جنگ کر دیا۔اس حملے میں اڑتالیس ملکوں کے ساتھ ساتھ افغانوں سے متعلق معلومات دینے (Intelligence Sharing) اور اسلحہ و افواج کی ترسیل (Logistics Supply) کے اہم فرائض پاکستان نے ’بحسن و خوبی‘‘ ادا کئے۔ ہم اس وقت یہ منطق بگھارتے تھے کہ اگر ہم نے امریکہ کا ساتھ نہ دیا تو ہمارا ’’تورہ بورہ‘‘بنا دیا جائے گا۔ کس قدر حیران کن بات ہے کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں طالبان کی شہادتیں پاکستان کے ستر ہزار معصوم انسانوں کی جانوں کے ضیاع سے کہیں کم ہیں۔تاریخ نے بتا دیا کہ ’’تورہ بورہ‘‘ کس کا بنا۔ کوئی کبھی کسی کو اپنے گھر پر حملہ کرنے کی دعوت نہیں دیتا۔ مُلا محمد عمر مجاہد ؒکے ساتھ جو لوگ مذاکرات کرنے گئے تھے ان میں پاکستانی علماء اور افواجِ پاکستان کے جرنیل بھی شامل تھے، ان کی گواہی کے مطابق، عمر ثالث مُلا محمد عمر مجاہدؒ نے آخری تجویز یہ دی تھی کہ دو علماء پاکستان، دو علماء سعودی عرب اور دو علماء ترکی یا ملائیشیاء سے بُلا کر ان سے رائے لی جائے کہ، ’’کیا اُسامہ بن لادن کا امریکہ کے حوالے کرنا درست ہے؟‘‘ اور پھر اگر میں اُسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر دوں تو ضمانت دیں کہ امریکہ افغانستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ سب گواہ ہیں کہ امریکہ نے ایسی ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا اور یوں مذاکرات ختم ہو گئے تھے۔ ایسے میں کون ہے کہ جو یہ کہے کہ طالبان نے امریکہ کو اپنے گھر حملے کی دعوت دی تھی۔ اگر یہی مان لیا جائے کہ مُلا محمد عمرؒ نے اسلامی غیرتِ حمیت اور پشتون عزت و وقار کو اہمیت دی، اور امریکہ اور عالمی برادری کے چیلنج کو قبول کیا، تو پھر تاریخ قیامت تک گواہ رہے گی کہ طالبان نے بیس سال جنگ لڑنے کے بعد عالمی طاقت امریکہ اور پوری عالمی برادری کو ذِلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ آج نہیں تو کل مؤرخ یہ کہانی بغیر کسی تعصب کے بلا کم و کاست ضرور تحریر کرے گا۔ افغانوں نے 1842ء میں جب اس برطانیہ کو جس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا اسے شکست دی،تو دُنیا بھر میں کوئی اس کہانی کو بیان کرنے والا نہیں تھا۔ کون بتاتا کہ برطانوی فوج کے میجر جنرل جارج کیتھ ایلفنسٹون(George Keith Elphinstone)کی بیس ہزار برطانوی فوج کو قتل کر کے ایک ڈاکٹر ولیم برائیڈن (William Brydon)کو چھوڑا گیا تھا، کہ اپنے ساتھیوں کو جا کر بتائو کہ وہاں صرف ’’نعرۂ تکبیر‘‘ بلند کرنے والے نہیں بلکہ اس ’’اللہ اکبر‘‘ پر توّکل رکھنے والے رہتے ہیں۔ آج اس شکست کے ایک ایک لمحے کی روئیداد تاریخ کا حصّہ ہے۔ ایسے ہی کل کا مؤرخ بھی طالبان کے بیس سالہ جہاد کے لمحے لمحے کی روئیداد لکھنے پر فخر محسوس کرے گا۔ پاکستان کا سیاسی و عسکری مبصر، سیاسی رہنما اور عسکری قائد، آج اپنے آپ کو جس سرخوشی کے عالم میں محسوس کر رہا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ افغانستان میں بھارت کی بیس سالہ محنت اور سرمایہ کاری تباہ و برباد ہو گئی ہے۔ لیکن اس میں ہمارا تو کوئی کمال نہیں ہے۔ ہم تو ڈھنگ سے احتجاج بھی نہ کر سکے۔ بھارت، امریکہ اور افغان حکومت کی سرپرستی میں پاکستان میں دہشت گردی اور علیحدگی پسند کی ٹریننگ کیلئے 66 کیمپ چلا رہا تھا اور ادھر ہمارا تو عالم یہ تھا کہ جس امریکہ کی سرپرستی میں بھارت یہ سب کچھ کر رہا تھا، ہم اس کے نان نیٹو اتحادی بھی تھے اور اس سے مسلسل کولیشن (Coalition) سپورٹ فنڈ کی بھیک بھی لیتے رہے۔ ہم اسی افغان حکومت سے روز گلے ملتے رہے۔ ذہن نشین کر لو کہ بھارت کی اس شکست میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے ایک نشانی ہے تاکہ ہم اس ’’غزوۂ ہند‘‘ کیلئے تیار ہو جائیں جس کی بشارتیں رسول اکرم ﷺنے دی ہیں۔ ہم اگر تیار نہ ہوئے تو اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ہماری جگہ کسی اور نسل کو آباد کر دے اور اسے اس عظیم محاذ کا امین بنا دے گا۔ افغانستان میں طالبان کی اس فتح سے پہلے اکتوبر 2019ء میں جب طالبان کے ساتھ امن معاہدے کا رڈ میپ طے ہوا تو 4 نومبر 2019ء کو پینٹاگون نے اپنی Indopacific ’’ہند و بحرالکاہل‘‘ کی جنگی حکمتِ عملی جاری کر دی، پھر جیسے ہی 20 فروری 2020ء کو افغانستان سے انخلاء کے معاہدہ پر دستخط ہوئے تو فوراً بھارت، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کا چار ملکی سکیورٹی اتحاد وجود میں آ گیا۔ اس اتحاد کا مقصد چین کی مالیاتی اور اقتصادی برتری کو روکنا ہے۔ آج اس اتحاد کی توجہ کا مرکز و محور صرف پاکستان ہے۔ افغانستان پر یلغار کیلئے تو صرف ایک موہوم سا بہانہ تراشا گیا تھا کہ وہاں اُسامہ بن لادن موجود ہے۔ لیکن پاکستان پر حملے کے جواز کیلئے تو جیتا جاگتا ایٹمی پروگرام موجود ہے،جس کے خلاف پچاس سال سے یہ مسلسل پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ اگر یہاں اسلام پسند غالب آ گئے تو یہ ایٹم بم ’’دہشت گردوں‘‘ کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ ہمارے حکمران گذشتہ بیس سالوں سے اس ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ملک بھر میں روشن خیالی، آزاد خیالی، مذہب دُشمنی اور حقوقِ نسواں کے نام پر ایک ایسی منفی صورت پیدا کر رہے ہیں، جس سے مسلسل عوامی نفرت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ نفرت اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ یہ ایک غبارہ ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اگر آج ملکی قوانین اور ماحول کو اسلام کی سمت ڈھالنے کے ذریعے اس غبارے سے ہوا نہ نکالی گئی۔ یہ منظر نامہ بہت شدید ہو سکتا ہے اور لوگ بزور قوت تبدیلی کیلئے منظم ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں عالمی قوتوں نے اسے ایک بہانہ بنا لیا اور ساتھ ہی گیارہ ستمبر جیسا کوئی بڑا واقعہ ہو گیا اور پھر یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ سارے ’’فساد کی جڑ‘‘ پاکستان ہے اور تمام عالمی قوتیں پاکستان پر حملے کیلئے تیار ہو سکتی ہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ ہم بائیس کروڑ عوام کتنے دن ان کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ شاید ایک دن بھی نہیں کیونکہ، گذشتہ تین دہائیوں سے عوام تو دورکی بات لفظ ’’جہاد‘‘ مساجد کے علماء کی ڈکشنری سے بھی خارج ہو چکا ہے۔ رہی فوج بمقابلہ فوج تو اس کے نتیجے میں ایک عالمی جنگ چھڑنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ کیونکہ پاکستان پر حملہ چین کی اقتصادی اور مالیاتی شہ رگ پر حملہ ہو گا اور عین ممکن ہے یہ براستہ بھارت ہو ،چین کے شامل ہونے کے بعد عالمی برادری کود پڑے۔ کیا ہم اس سب کچھ کیلئے تیار ہیں۔ یاد رکھو! کوئی کسی کو اپنے ملک پر حملے کی دعوت نہیں دیتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کون کتنا ثابت قدم رہتا ہے۔