کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو تو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا دل نے در کھول دیے ہیں تری آسانی کو صاحبو بات یہ ہے کہ ہمارا کالم پڑھنے والوں نے ہمارا رخ کسی اور جانب موڑ دیا ہے۔ میرا اندازہ صدفی صد درست تھا کہ لوگ سیاسی کالم پڑھ پڑھ کر اکتا چکے ہیں۔ اس لئے میں نے گدھے پر کالم باندھ دیا جسے اتنی پذیرائی ملی کہ میں حیران رہ گیا اور تو اور سندھ سے دعا علی نے میرے کالم پر ذکر کرتے ہوئے سندھی گدھوں کا بھی تذکرہ کیاجو خاص بھلے مانس ہیں۔ اگرچہ گھوڑا شاہی سواری ہے مگر گدھے کی فضیلت بھی کچھ کم نہیں کہ اس میں انکسار ہے اور اس پر برگزیدہ لوگ سواری کرتے رہے ہیں۔ شیخ سعدی کا گدھا بھی مشہور ہوا۔ فی الحال میں گدھے کے بیان کو ختم کرتا ہوں کہ اتنا ہی کافی ہے آج میری نظر ایک طوطے پر پڑی تو سوچا اپنے قارئین کے ساتھ طوطے کی بات کی جائے۔ طوطا ہماری زندگیوں میں آغاز ہی سے در آتا ہے جب ہم بچپن میں سیڑھی لگا کر اس کے بچوں کو درخت سے نکالنے کی کوشش میں اس کی چونچ سے زخمی ہو کر ہائے ہائے کرتے ہیں۔ طوطا ہماری فال بھی نکالتا رہا ہے اور وہ توپ بھی چلاتا رہا ہے۔ لیکن آج جس طوطے کا ذکر میں کرنے جا رہا ہوں وہ برازیل کا طوطا ہے جسے برازیل کے ایک منشیات فروش نے رکھا ہوا تھاجو اسے پولیس کے چھاپے کے وقت مخصوص انداز میں خبردار کرتا تھا۔ ایک روز بہرحال وہ طوطا بھی مالک کے ساتھ گرفتار ہو گیا کہ پولیس پر منکشف ہوا کہ اس کے آنے پر دروازے سے لٹکا ہوا طوطا شور مچا دیتا ہے’’ماما پولیس‘ ماما پولیس‘‘ غیر ملکی میڈیا نے اس خبر کو بہت نمایاں کیا ہے۔ گویا یہ ایک نئی طوطا کہانی ہے۔ پہلی کہانیوں میں طوطا پرستان میں ہوتا تھا اور اس میں کسی نہ کسی جن کی جان ہوتی تھی اور کوئی شہزادہ اس جن کو قابو کرنے کے لئے طوطے تک پہنچتا تھا۔ مولانا روم کی مثنوی میں بھی تو ایک طوطے کا ذکر ہے جو ایک دکاندار کی غیر موجودگی میں دکان کی نگرانی کرتا تھا۔ ایک روز اس سے تیل کا برتن پر لگنے سے گر گیا جس پر مالک نے اسے اتنا مارا کہ اس کے پر زخمی ہوئے اور سر کے بال اتر گئے۔ یہ طوطا اس مار کی وجہ سے خاموش ہو گیا۔ یعنی اسے چپ لگ گئی وہ اس روز بولا جب ایک گنجا گاہک دکان پر آیا۔ طوطے نے اسے کہا کہ ’’اس نے کس کا تیل گرایا تھا‘‘؟ پر وہ طوطا بھی تو ہے جس نے اپنے مالک کی آفر پر اسے پیغام دیا تھا کہ وہ پردیس کے طوطوں کو یہ پیغام دے دے کہ تمہارا دوست! اسیر ہے۔ اس شخص نے جب وعدے کے مطابق وہاں کے طوطوں کو پیغام دیا تو کچھ طوطے نیچے گر گئے۔ مالک نے یہ منظر اپنے طوطے کو بتایا تو وہ پنجرے میں گر گیا اور سانس روک لی۔ مالک پریشان ہوا کہ شاید وہ مر گیا ہے۔ اس نے فوراً طوطے کو پنجرے سے نکال کر فسٹ ایڈ دینے کی کوشش کی مگر وہ یک دم اڑ کر درخت پر جا بیٹھا۔ مالک ہکا بکا رہ گیا۔ طوطے نے درخت پر سے کہا’’جناب یہی تو میرے دوستوں نے مجھے سمجھایا ہے‘‘ اب میں ان کے پاس جا رہا ہوں۔ دیکھیے طوطا بھی کتنا سمجھدار ہے۔ طوطے کے اڑنے سے اپنے دوست عدیم ہاشمی کا شعر یاد آ گیا: بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ اڑا دیے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے مجھے موری سن کے ناول جیزJazzکا طوطا بھی یاد آیا جسے ناول کے ہیرو کی بیوی نے اپنے میاں کی بے وفائی کے ردعمل میں پنجرے سے دوسرے پرندوں کے ساتھ برف باری میں اڑا دیا تھا اور کہا تھا کہ ’’تم بھی جائو‘‘ یعنی وہ اس کا پیٹ تھا اور سب سے وفادار یہ بہت پیارا پرندا ہے مگر ہم نے نہ جانے کیوں ’’طوطا چشمی‘‘ بے وفائی کے لئے اصطلاح بنا لی ہے۔ حالانکہ طوطے سے زیاد کون وفادار ہو سکتا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ وہ سیاست دان جو حکومت میں ہوتے ہیں وہ وزیر اعظم کے طوطے ہوتے ہیں‘ انہیں جو پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے وہی بولتے ہیں۔ اب اس میں ایک طوطی کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ اب کون کہے گا کہ نگار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے اس طوطی کو توطوطوں کو چپ کروانے کے لئے لایا گیا ہے۔ بس بات اسی کی ہے جس کا طوطی بولتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ ان طوطوں سے جب عوام اکتا جاتے ہیں تو ان طوطوں کو طوطوں ہی سے ری پلیس کیا جاتا ہے کوئی طوطا آئی ایم ایف کی زبان بولتا ہے تو کوئی کسی کی۔ یہ وہی ہیں’’طوطیا وے من موتیا‘‘ اس وقت تو حکومت کے ہاتھوں کے طوطے اڑے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں ایک شخص کا طوطا بہت ہی سمجھدار اور چہرہ شناس اور مردم شناس بھی تھا۔ ایک روز جب اس شخص کا دیرینہ دوست اسے ملنے آیا تو طوطے نے کہا کہ یہ کس قسم کے چول لوگ یہاں آنے لگے۔ وہ دوست سخت ناراض ہوا اور احتجاجاً یہ کہتے ہوئے گھر سے نکل گیا کہ وہ آئندہ یہاں قدم نہیں رکھے گا اس نے طوطے کو بھی برا بھلا کہا اور چلتا بنا اس شخص نے اپنے دوست سے رابطہ کیا اور معافی طلب کی کہ آئندہ اس کا طوطا ایسی بے ادبی نہیں کرے گا۔ دوست مان گیا اور دوبارہ چائے پر آ گیا اور اس نے مستقل طوطے پر نظر رکھی کہ اگر اس نے ذرا سی بھی بکواس کی وہ چلا جائے گا۔طوطا مگر مکمل خاموش رہا۔وہ دوست خوش ہوا کہ چلو طوطا راہ راست پر آ گیااور اس دوست نے اسے سمجھایا ہو گا۔ مگر جب عین وقت پر جبکہ وہ جانے لگا تو اس نے آخری یعنی الوداعی نظر طوطے پر ڈالی تو طوطے نے کہا سمجھ تے گیاہوویں گا‘‘ یعنی آپ سمجھ گئے ہونگے۔ لیجئے گرم تماشہ ہونے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کثرت نظارہ چشم وا ہوتی ہے۔ طوطے کا ذکر توہم پہلے کر چکے۔ طوطے کی ایک بات تو ہمارے حافظ کا حصہ’’میاں مٹھو چوری کھانی ایں‘‘ ویسے تو طوطے آیت بھی تلاوت کرتے ہیں۔ بس یہ اللہ کی مخلوق ہے اس کی کتنی اقسام ہیں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ چند اقسام دیکھ کر ہی بندہ اللہ کے کمالات کا قائل ہو جاتا ہے۔ ہمیں اشفاق صاحب کی توتا کہانی بھی یاد ہے۔ کالم تمام کرتے ہیں ایک شعر کے ساتھ: سحر بن کے آنکھیں کھلیں تو حقیقت کا پورا سبق داستان ہو گیا یہ کیا ہے محبت میں اک شخص کی اپنا سارا سفر رائیگاں ہو گیا