یہ بات باعث تشویش ہے کہ سند ھ حکومت اور وفاق دونوں سندھ کارڈ کھیل رہے ہیں،بظاہر سندھ کے حقوق کے محافظ دراصل ملفوف انداز میںسندھ سے زیادتی کا رونا رو رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے وزیر اعظم عمران خان کوخط بھیجا ہے جس میں وفاق کی جا نب سے سند ھ کے مالی حقوق غصب کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔خط میں مراد علی شاہ کا کہنا تھا’’ جب سے پی ٹی آئی برسراقتدار آئی ہے سندھ کے ساتھ تعصب برتا جارہا اور ناانصافی کی جا رہی ہے، وفاق کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں سندھ کے منصوبے نظرانداز کردئیے گئے،وزیراعظم سندھ کو محروم کرنے کے بجائے اس کا حق دیں،کراچی میں فراہمی آب کے منصوبے کے فور سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ان کاکہنا تھا کہ لگتا نہیں کہ یہ منصوبہ بروقت مکمل ہوسکے گا اورمختص بجٹ ضائع ہونے سے پہلے استعمال ہوگا، صوبہ سندھ کو خیبر پختونخوا سے کم منصوبے دئیے گئے‘‘۔ کووڈ ویکسی نیشن سنٹر کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا ’’گزشتہ 7سال میں سندھ کو کوئی سکیم نہیں دی گئی، جب وفاق کو خط لکھا تو لگتا ہے بہرے لوگوں سے بات کررہا ہوں‘‘۔دوسری طرف وزیر اعظم کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں بھی وزیراعلیٰ سندھ نے صوبے کیلئے ترقیاتی بجٹ کم رکھنے پر احتجاج کیااور اس پر اختلافی نوٹ جمع کرانے کا فیصلہ کیا۔اس کے علاوہ آبپاشی کے لئے پانی کی تقسیم بھی وفاق اور سندھ حکومت میں تنازع بنی ہوئی ہے ،فریقین ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہے ہیں۔ مراد علی شاہ کے خط کا جواب تو وزیر اعظم کو ہی دینا چاہیے تھا لیکن خان صاحب کی ہدایت پر وفاقی وزیرمنصوبہ بندی اسد عمر نے ویڈیو پیغام اور میڈیا سے گفتگو کے ذریعے ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پیپلز پارٹی قوم پرستی کا پرانا کا رڈکھیل رہی ہے، انہوں نے مراد علی شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہم سندھ کی خدمت کریں گے لیکن آپ کو راستے میں نہیں آنے دیں گے۔ اسدعمر کا مزید کہنا تھا ہماری حکومت اور اس سے پہلے کے تین سال کا موازنہ کریں تو ہم نے ان منصوبوں کے لئے کم از کم 32فیصد زیادہ رقم رکھی ہے، وزیراعلیٰ صاحب آپ سندھ حکومت کا حصہ ہیں لیکن سندھ کے عوام نہیں اور ہم نے پیسہ سندھ کے عوام پر خرچ کرنا ہے، حکومت سندھ پر نہیں، حکومت سندھ کے پاس پہلے جو پیسہ گیا اس سے سرے محل بنے،سوئٹزرلینڈ میں ڈائمنڈ کے ہار بھی بنے، ا س سے دبئی میں ٹاور بھی کھڑے ہوئے اور فرانس میں جائیدادیں بھی بنائی گئیں لیکن وہ پیسہ سندھ کے اندر نہیں لگایا گیا‘‘۔ ادھرترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا عمران خان صاحب نے دو نہیں ایک پاکستان کا وعدہ کیا تھا مگر اب ان کی ترجیحات تبدیل ہوگئی ہیں،عمران خان کی حکومت میں ایک پی ٹی آئی کا پاکستان اور دوسرا سندھ کا پاکستان ہے،سندھ کے عوام نے بار بار تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کو مسترد کیا ہے کیونکہ ان کی ترجیحات میں سندھ کے عوام نہیں،وفاقی حکومت نے اپنے کام سے ثابت کیا ہے کہ سندھ کے عوام سے ان کی کوئی دلچسپی نہیں، وزیر اعلیٰ سندھ کو جب معلوم ہوا کہ پی ایس ڈی پی منصفانہ انداز میں نہیں بنایا گیا تو اس لیے انہوں نے وفاق کو یہ خط لکھنے کا فیصلہ کیا،اسد عمر سے جب شواہد مانگے گئے تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس نہیں۔ اس سے پہلے بھی صوبوں کے حقوق کے حوالے سے سیاست ہوتی رہی ہے، جب میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں تو میاں صاحب عمومی پروٹوکول کو نظر انداز کرکے ان کا لاہور آ نے پر استقبال تک نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح انہوں نے پنجاب کو جگانے کے حوالے سے نعرے بھی گھڑے ۔ ملک کی سب سے بڑی سیا سی جماعت جو پنجاب میں حکمران بھی تھی کا اعلان بغاوت کرنا عجیب سی بات تھی ۔اب وزیر اعلیٰ سند ھ کی شکا یت کہ وفاق ان کے ساتھ سندھ کارڈ کھیل رہا ہے اور صوبے کے حقوق دانستہ طور پر غصب کئے جا رہے ہیں،بڑا افسوسناک عمل ہے ۔تاہم اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سا بق صدر مملکت آصف علی زرداری کا ریکارڈ بہت اچھا ہے۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو دسمبر 2007میں شہید کیا گیا تو اس وقت پیپلز پارٹی اقتدار میں نہیں تھی، اس کے باوجود زرداری صاحب نے بعض مشیروں کے سندھ کارڈ استعمال کرنے کے مشورے کو ماننے سے انکارکر دیا ،حالانکہ ان کے مطابق سندھ کارڈ استعمال کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ہو سکتا تھا۔لیکن انہوں نے ان مشیروں کی بات پر کان دھرنے کے بجائے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ مستانہ بلندکیا ۔ گویا کہ پاکستان شاد رہے، آباد رہے ۔بعدازاں جب پیپلز پارٹی مرکز میں اقتدار میں آ ئی تو صوبائی تعصب پھیلانے کی دور دور تک بو نہیں آئی بلکہ کچھ ایسے قابل ستائش اقدامات کئے گئے جن میں فراخدلانہ طور پراین ایف سی ایوارڈ اور آئین میں18ویں ترمیم بھی شامل ہیں ۔ خان صاحب سمیت بعد میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت نے 18ویں ترمیم ختم کرنے کا بار بار عندیہ دیا ۔یہ الگ بات ہے کہ پارلیمنٹ میں عددی اکثریت نہ ہونے کے باعث وہ ایسانہیں کر پائی ۔ یہ پراپیگنڈا شدت سے کیا گیا کہ18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو بہت کچھ دے دیا گیا جس سے وفاق قلاش ہو گیا ہے ۔ اس کے باوجود یہ دعویٰ کرنا کہ سند ھ کے وزیر اعلیٰ صوبائی عصبیت کا کارڈ کھیل رہے ہیں یکطرفہ ہے ۔ اتفاق سے این ایف سی ایوارڈ کے با نی شوکت ترین ہیں جو اس وقت بھی وزیر خزانہ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی پیدا وار میں سالانہ ایک فیصد اضافے کی صورت میں اس میںکوئی ڈینٹ نہیں پڑتا۔ دراصل سند ھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا وجود بہت سے حلقوں کے لیے ناقابل برداشت ہے ۔ جب سے پی ٹی آئی برسراقتدار آئی ہے اس نے پہلے بلاواسطہ اوراب براہ راست سند ھ کے ساتھ لڑائی شروع کر دی ہے۔ حکمران جماعت کا سب سے بڑا گلہ یہی ہے کہ وہاں وہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی سے بری طرح شکست کھا گئی۔ گورنر سند ھ عمران اسما عیل اور سندھ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے وفاقی وزرا محاذ آرائی اور سندھ حکومت کو نچلا دکھانے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ حال ہی میں وزیرداخلہ شیخ رشید کو ایمرجنسی میں کراچی بھیجا گیا، بظاہر ان کا مشن سندھ میں امن وامان کے مسائل حل کرنا تھا لیکن اس قسم کی افواہیں اڑ گئیں کہ شیخ صاحب وہاں حکومت ہٹانے کے مشن پر گئے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ شیخ صا حب کو وہاں واقعی امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے ہی بھیجا گیا تھا، ویسے بھی وفاق کی جانب سے کسی بھی صوبے کی حکومت کو عددی اکثریت کی بنا پر باہر نکالنا اب ممکن نہیں رہا ۔ اس حوالے سے آئینی اور قانونی پو زیشن میں کوئی ابہام نہیں ۔ پی ٹی آئی کے سندھ فتح کرنے کے خواب اپنی جگہ لیکن سند ھ حکومت کو بھی وفاق سے بہتر رویہ اپنانا چاہیے ۔ سیاسی فریقین آپس کی لڑائی میں نتائج سے بے پروا ہو کرمحاذآرائی میں خواہ مخواہ وقت ضا ئع نہ کریں۔انہیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی سیاست کے نتیجے میں آدھا ملک گنوا بیٹھے ہیں،یقینا سقوط ڈھاکہ میں شیخ مجیب کی شعلہ نوائی کے علاوہ اوربھی عوامل شامل تھے ۔