پی ٹی آئی حکومت نے معاشی و مالیاتی مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے تیسرا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ وفاقی بجٹ 2021-22ء کے کل اخراجات کا تخمینہ 8487ارب روپے ہے جبکہ بجٹ خسارہ 3990ارب روپے ہے۔ نمایاں خدوخال یہ ہیں کہ 382ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے گئے ہیں جبکہ 119ارب کے ٹیکسوں پر چھوٹ دی گئی۔ معاشی ماہرین‘ کاروباری طبقات اور سرکاری ملازمین نے بجٹ کو حوصلہ افزا قرار دیا ہے۔اپوزیشن کے خیال میں معاشی اعدادو شمار میں جعل سازی کی جارہی ہے ۔ پی ٹی آئی حکومت کے سابق دونوں بجٹ دگرگوں مالی حالت کو سنبھالنے کی کوشش تھے ،ان میں کرنسی کی گردش کو محدود کیا گیا‘ نئے ٹیکسز لگائے،اصلاحات کا آغاز ہوا اور ایف اے ٹی ایف کی ہدایت پر مالیاتی قوانین کا نفاذ کیا جس سے زیرگردش کرنسی کم ہوئی تاہم گزشتہ برس کاروباری طبقات کی دوہائی پر رئیل اسٹیٹ‘ تعمیرات ،ٹیکسٹائل اور زراعت کے شعبے کے لئے مراعات کا اعلان کیا گیا۔ رواں مالی سال میں شرح نمو میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا اس کی وجہ پچھلے بجٹ میں کی گئی منصوبہ بندی اور تارکین وطن کی ریکارڈ حجم میں بھیجی ترسیلات زر ہیں ۔ حکومت اپنی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے مسلسل تنقید کی زد میں رہی ہے۔تین ماہ سے معاشی بہتری کی رپورٹس آنے پر اس بار عوام میں حکومت کی پالیسیوں پر اعتماد دیکھا جا رہا ہے۔ دفاعی بجٹ پاکستان نے خطے میں تنازعات کو طے کرنے اور امن کی بحالی کے لئے مسلسل محنت کی ہے تاکہ وسائل کو عوام کا معیار زندگی بلند کرنے پر صرف کیا جا سکے ۔ افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بعد ایک نئی صورت حال ہو گی جو کسی حد تک غیر یقینی پن میں لپٹی ہوئی ہے۔ کشمیر میں بھارت کچھ نئی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ان حالات میں دفاعی اخراجات کو بہت کم نہیں کیا جا سکتا۔ پچھلے دو سال میں آرمی چیف کی ہدایت پر دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ آئندہ مالی سال کے لئے قومی بجٹ کا 16فیصد یعنی 1373.275ارب روپے دفاع کے لئے رکھے گئے ہیں۔ دو برس پہلے افواج پاکستان نے 190ارب روپے بطور ٹیکس جمع کرائے‘ گزشتہ برس بجٹ نہ بڑھانے پر تنخواہیں نہ بڑھائی گئیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ دفاعی بجٹ میں ان منصوبوں کے لئے رقوم مختص کی گئی ہیں جو پاکستان کو دفاعی پیداوار میں خود کفیل بنا سکیں۔ زرعی ترقی پر توجہ پی ٹی آئی نے اقتدار میں آتے ہی زراعت پر خصوصی توجہ دی۔ بعض بدانتظامیوں کی بنا پر وافر گندم اور گنا ہونے کے باوجود بحران دیکھنا پڑا لیکن رواں برس گندم کے زیر کاشت رقبہ میں اضافہ‘ مکئی اور گنا کی فصل کا زیادہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ حکومتی ترغیبات کے باعث کسان کی دلچسپی دوبارہ سے زراعت سے وابستہ ہو گئی ہے۔ رواں برس کپاس کے سوا سب فصلیں اچھی ہوئی ہیں۔ چند روز قبل وزیر اعظم خود کسان نمائندوں سے ملے اور بجٹ کے متعلق ان سے مشاورت کی۔ بجٹ میں زرعی آلات‘ ٹیکنالوجی پر ٹیکسوں کی چھوٹ دی گئی ہے۔ اس سے زرعی شعبے میں ٹیکنالوجی کو فروغ مل سکے گا۔ کاشتکاروں کے لئے ہر فصل کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپے بلا سود قرض دینے کی سکیم متعارف کرائی جا رہی ہے۔ یہ سکیم چھوٹے کسان کو آڑھتی سے ایڈوانس کی شکل میں لی گئی رقم اور پھر بلیک میلنگ سے نجات دلا سکتی ہے۔ بلا سود قرض ملنے پر لاکھوں چھوٹے کسان آزادانہ طور پر زراعت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ آئی ٹی اور انٹر نیٹ سیکٹر رواں برس خدمات کے شعبے نے سب سے زیادہ شرح نمو حاصل کی ہے۔ خدمات کا بڑا حصہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹر نیٹ کی مدد سے انجام دیا جا رہا ہے۔ اس شعبے پر حکومت نے بعض ٹیکسز اور ضابطوں کا اعلان کیا ہے۔ ٹیلی فون پر غیر ضروری اور تین منٹ سے طویل کال کرنے پر اضافی ٹیکس عاید کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح ٹیکنالوجی زونز کو ٹیکس کی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ شہریوں کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ اپنی ٹیکس ریٹرن خود بنا کر بھیجیں۔ بہتر ہو کہ حکومت اس شعبے کو مزید پھیلنے پھولنے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرے۔ اس سلسلے میں ایک خاص حجم کے آن لائن کاروبار یا صلاحیت کو ٹیکسوں سے مکمل چھوٹ دی جا سکتی ہے۔ غریب طبقات کے لئے ریلیف وفاقی بجٹ 2021-22ء میں تجویز دی گئی ہے کہ مہنگائی بڑھنے پر نچلے طبقات کی بنیادی ضروریات پوری کرنا دشوار ہو گیا ہے۔ حکومت نے گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی کم از کم ماہانہ اجرت میں اضافہ کیا ہے جو 20ہزار کرنے کی تجویز ہے۔ اس طرح غریب گھرانوں کو کاروبار کے لئے 5لاکھ تک بلا سود قرضہ دینے کی سکیم پیش کی جا رہی ہے‘ زندگی بچانے والے ادویات کی قیمتیں کم کرنے‘خوردنی تیل سستا کرنے اور چھوٹے کاروبار کو ٹیکس چھوٹ دینے سے نچلے طبقات کی معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ احساس پروگرام اور نیا پاکستان ہائوسنگ منصوبے کے لئے خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ تعیشات پر ٹیکس اضافہ پاکستان میں اکثریتی آبادی کو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنا محال ہے۔ دوسری طرف ایسا طبقہ ہے جو نمود و نمائش پر کروڑوں لٹا دیتا ہے۔ درآمدی مہنگے موبائل فون‘ بڑی گاڑیاں‘ درآمدی میک اپ سامان‘ خوشبویات ‘ جانوروں کی خوراک سمیت 180اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھائی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ تمام ریٹیل اور ہول سیل ٹرانزیکشنز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ مقامی سطح پر چھوٹی گاڑیوں کی پیداوار اور کھپت کی حوصلہ افزائی کے لئے حکومت نے ٹیکسز میں چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے زرمبادلہ میں بچت ہو سکتی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ حکومت نے مہنگائی کے تناسب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کچھ عرصہ قبل ایڈھاک25فیصد اضافہ کیا ۔ حالیہ بجٹ میں تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ کیا گیاہے۔ اس حساب سے امسال سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 35فیصد بڑھی ہیں۔ گو مہنگائی میں اس سے زیادہ اضافہ ہوا ہے لیکن پھر بھی حکومت نے دستیاب وسائل کے مطابق سرکاری ملازمین کا خیال رکھا ہے۔بعض سرکاری ملازمین کی تنظیموں کے سرکردہ افراد ملازمین کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس معاملے میں اپوزیشن کی شدید خواہش رہی ہے کہ عوام کو احتجاج پر آمادہ کیا جا سکے۔ بیورو کریسی کی جانب سے حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کا ترقیاتی بجٹ نصف کے قریب خرچ ہونے سے رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ مزدور کی کم از کم اجرت بھی 20ہزار مقرر کر دی گئی ہے ۔ اس امر کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ مزدور کو 20ہزار روپے ملنا شروع ہو جائیں۔حکومتی اعلان کے بعد پوری اجرت مزدور کو دلوانا اب ریاستی مشینری کی ذمہ داری ہے۔وفاقی بجٹ کے ابتدائی خدوخال بتاتے ہیں کہ حکومت نے مہنگائی اور بد انتظامی سے پہنچنے والے نقصان کی تلافی کی ہے ،اس سے اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کو غیر موثر کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ آبی تحفظ کے لئے حکومت کا مستحسن اقدام حکومت نے مالی سال 2021-22ء کے وفاقی بجٹ میں پانی کے بحران سے نمٹنے کے لئے 10سالہ منصوبہ بندی کی ہے اور آبی تحفظ کے لئے مجموعی طور پر 92ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں تین بڑے ڈیمز کی تعمیر کو حکومت کی اولین ترجیح بتایا ہے۔ پاکستان کو آبی بحران کا سامنا ہے ماہرین اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر حکومت نے آبی تحفظ کے لئے بروقت اور مناسب اقدامات نہ اٹھائے تو 2040ء تک پاکستان کو شدید آبی بحران اور قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ایک طرف صوبے پانی کی قلت کے باعث ایک دوسرے کے حصے کا پانی چوری کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں تو دوسری طرف بھارت پاکستانی دریائوں پر ڈیمز بنانے کا عالمی برادری کو جواز یہ دیتا ہے کہ کیونکہ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں اس لئے سالانہ لاکھوں ایکڑ فٹ پانی سمندر میں غرق ہو جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے آبی ذخائر میں اضافے کے لئے ڈیمز بنانے کے بجائے تھرمل بجلی گھروں سے مہنگی بجلی خرید کر ملک و قوم کو قرضوں اور مہنگی بجلی کے دوہرے عذاب میں مبتلا کیا۔ اس لحاظ سے موجودہ حکومت کا آبی ذخائر کے لئے بجٹ مختص کرنا خوش آئند اقدام ہے ۔بہتر ہو گا وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو بھی اپنے اپنے صوبے میں چھوٹے ڈیمز بنا کر پانی ذخیرہ کرنے پر مائل کرے تاکہ پاکستان کو آبی قلت سے نجات مل سکے۔