لاہور (نامہ نگارخصوصی) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان کی سربراہی میں قائم فل بینچ نے کرونا کے پھیلاؤ سے بچاؤ کے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے یمارکس دئیے ہیں لگتا ہے وفاقی حکومت کے پاس مریضوں کا مکمل ریکارڈ نہیں یا وہ کچھ چھپا رہی ہے ۔عدالت نے کہا وفاقی حکومت نے بہت غفلت کی ، پازیٹو آنے والے افراد کو سوسائٹی میں جانے دیا،عدالت نے حکم دیا اشیائے خورونوش کی قلت نہیں ہونی چاہیے ، تمام منڈیاں کھلی رہیں، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کی جائے ، اگر رش کا مسئلہ ہو تو چین ماڈل کی طرح دائرے میں لوگوں کو کھڑا ہونے دیں،ضرورت مند افراد کو راشن جبکہ نرسوں اور پیرامیڈکس کو سپیشل الاؤنس فراہم کیا جائے ، پی ایم اے کی فریق بننے کی استدعاچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس وبا سے ڈاکٹر ہی نہیں تمام طبقات متاثر ہو رہے ہیں، ہم جو کاغذ پکڑتے ہیں ، اس سے بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے ،ڈاکٹرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس وقت میں خدمات انجام دیں، عدالت کو بتایا گیا بیرون ملک سے 13494 افرادواپس آئے ،4407 زائرین ایران سے آئے جبکہ 317 اب بھی وہاں ہیں، عدالت نے استفسار کیا بیرون ملک سے کتنے پاکستانی واپس آئے اور سکریننگ کب شروع کی گئی، تسلی بخش جواب نہ ملنے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا اور قرار دیا قرنطینہ سنٹرز ایک کمرہ ایک مریض کے ماڈل پر چلا جائے جبکہ پیرامیڈیکس، رضاکاروں ،سول ڈیفنس سے متعلق پالیسی بھی بنائی جائے ۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا بیروزگاروں اورمستحقین تک راشن کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے ، ڈیلی ویجرزکوبھی تحفظ فراہم کیاجارہا ہے ۔سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیپٹن(ر) عثمان نے کہا جب کوئی کیس پازیٹو آتا ہے تو ہم اسے فوری آئسولیٹ کر دیتے ہیں، مریض کا ڈیٹا اکٹھااور اس سے ملنے والے تمام افراد کو گھروں میں آئسولیٹ کرتے ہیں،اگر کسی شخص کو حکومت کا قرنطینہ پسند نہیں آتا تو وہ پرائیوٹ جا سکتے ہیں،پڑھے لکھے لوگ بھی ضد کر رہے اور کہتے ہیں والدین سے ملاقات کی اجازت دی جائے ،ہرشخص کاٹیسٹ نہیں کیا جارہا،پالیسی کے مطابق مشتبہ افراد کے ہی ٹیسٹ کئے جائیں گے ۔عدالت نے پنجاب میں آٹے کی کمی پراظہار تشویش کیا اور استفسار کیا سننے میں آ رہا ہے کہ اب مارکیٹ میں آٹے کی کمی ہو گئی ہے ،آٹے کی کمی کسی صورت نہیں ہونی چاہئے ، ایس ایچ او اپنے علاقے پر نظر اور ذخیرہ اندوزی روکے ،ڈپٹی کمشنر بھی آٹے کی دستیابی یقینی بنائیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہسپتال میں کرونا وائرس کے مریضوں کاٹیلی فون کے ذریعے اپنے گھروالوں سے رابطہ یقینی بنایاجائے ۔وکلاء ، سیاسی وسماجی کارکن انسانیت کی خدمت میں آگے آئیں،اپنے ملازمین کوتنخواہ کے علاوہ اضافی رقم خداکی رضاکے لئے دیں۔ صوبائی حکومت کے پاس ڈیٹا کیوں نہیں کہ ایران سے کتنے زائرین واپس آئے ۔ایران سے پہلے تو یہ وباء اٹلی،فرانس،چین اورامریکہ میں پھیلی،یکم جنوری سے اب تک آنے والے کتنے افرادکی سکریننگ کی گئی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مبہم جواب پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا لگ رہا ہے حکومت کچھ چھپا رہی ہے یاآپ عدالت کی درست معاونت نہیں کررہے ،کس تاریخ سے ائیرپورٹ پر سکریننگ شروع کی گئی۔جسٹس شجاعت علی خان نے کہا لگ رہاہے وفاقی حکومت نے غفلت کامظاہرہ کیا۔چیف جسٹس نے کہا لگ رہا ہے وفاقی حکومت کے پاس یہ ڈیٹا موجو د ہی نہیں کہ کتنے افراد سکریننگ کے بغیرگزرے ،چیف جسٹس نے کہا حکومت کو پتا تھا کہ چائنہ میں یہ وبا آ چکی ہے پھر خاطر خواہ اقدامات کیوں نہیں کئے ،ہم کیس کو آج نمٹانا چاہتے ہیں لیکن شاید حکومت چاہتی ہے یہ کیس روز چلے ،ڈیٹا نہیں ہو گاتو حکومت کیسے اس وبا پر قابو پائے گی،لگتا ہے آج آپ عدالت سے وفاقی حکومت کے لیے کوئی آبزرویشن لینا چاہتے ہیں،ہم اپنے فیصلے میں حکومت کی غفلت کے بارے میں لکھیں گے ۔ ایک سوچوالیس ملزمان رقم کی عدم ادائیگی پرجیلوں میں ہیں،تقریبا نو کروڑ روپے سے زائد کی رقم بنتی ہے ،پنجاب کے ایسے قیدیوں کی رہائی کے لئے وفاقی اورصوبائی حکومت مل کرفوری ہنگامی پالیسی بنائیں اوراگلے سات دنوں میں زیادہ سے زیادہ قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے ،جیل حکام کرونا وائرس کے پیش نظر قیدیوں کی ضمانتیں دائر کریں، واضح ہدایات کے ساتھ تفصیلی فیصلہ دیں گے ، یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار وبا ہے جس میں غلطیوں کی گنجائش کونظر انداز کیا جائے ۔ چیف جسٹس نے غلہ منڈیوں، پھل اورسبزی منڈیوں کو ٹرانسپورٹ کی فراہمی یقینی بنانے اور ضرورت مند طبقے کو بلاامتیاز راشن کی فراہمی کا حکم بھی دیااورہدایت کی کہ قرنطینہ سینٹرزکے اردگردجراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کیا جائے ۔ راجن پور کے اس سول جج کی مجھے اپنے سے زیادہ فکر ہے جوفیلڈ میں ہے ۔پی ایم اے کے وکیل نے فریق بننے کی درخواست واپس لے لی۔لاہور ہائیکورٹ نے سینیٹائزراورکرونا سے متعلق دوائی کے پیکنگ میٹیریل کی عدم فراہمی کے خلاف درخواست پرحکومت پنجاب کو درخواست کا فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی۔