وزیراعظم عمران خان نے کرونا وائرس کی وجہ سے روزگار اور کاروبار کی پریشانی میں مبتلا افراد کے لیے ایک بڑے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اس پیکج سے صنعت کاروں، دکانداروں اور ان 70لاکھ دیہاڑی داروں کو فائدہ ہو گا جو روز صبح اس امید پر ملک میں امن اور سکون کی دعا کرتے ہیں کہ انہیں پورا دن مشقت کے بدلے شام کو بچوں کے لیے روٹی مل جاتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پاکستان کے غریب اور محروم طبقات کے مسائل سے آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مکمل لاک ڈائون نافذ کرنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ رواں ماہ کے پہلے ہفتے عالمی بینک نے دنیا کے ان 60ممالک کے لیے 12ارب ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا جو کرونا وائرس سے متاثر ہوئے۔ یہ رقم متاثرہ ممالک میں صحت کا نظام بہتر بنانے اور صحت کی خدمات کا معیار بڑھانے پر خرچ ہوں گی۔ عالمی بینک کے فراہم کردہ فنڈز سے کرونا وبا کی نگرانی کے علاوہ نجی شعبے کے اشتراک سے ایسی حکمت عملی مرتب کی جائے گی جو معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے اثرات کو کم کر سکے۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ اس امدادی پیکج کے ذریعے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ کرونا وائرس سے عالمی مالیاتی نظام کو پہنچنے والے نقصانات نے آئی ایم ایف کو بھی متاثرہ ممالک کی مدد کرنے پر مائل کیا ہے۔ ایران نے 60سال بعد آئی ایم ایف سے رابطہ کر کے قرض کی درخواست کی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے ہی نہیں مختلف ممالک نے اپنی معیشت کو بچانے کے لیے حتی المقدور اقدامات کیے ہیں۔ امریکی معیشت کا حجم کھربوں ڈالر میں ہے۔ صدر ٹرمپ نے کرونا کے اثرات سے امریکی معیشت کومحفوظ رکھنے کے لیے 20کھرب ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ کے امدادی پیکج میں ہر شہری کو ایک ہزار ڈالر کی فراہمی، کرونا کی وجہ سے برے طریقے سے متاثر ہونے والی ہوا بازی کی صنعت اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے مالیاتی امداد شامل ہے۔ متحدہ عرب امارات کے سنٹرل بینک نے قومی معیشت ،صارفین اور کاروباری کمپنیوں کے تحفظ کے لیے ایک سو ارب درہم کا معاشی پیکج تیار کیا ہے۔ طے شدہ مالیاتی پیکج میں 50ارب درہم تک کا قرضہ شامل ہے جو ضمانت کے بدلے متحدہ عرب امارات میں کام کرنے والے بینکوں کو زیرو مارک اپ پر قرضوں اور ایڈوانس کی شکل میں دیا جائے گا۔ باقی 50ارب درہم بینکوں سے حاصل ہونے والی بچت اور دارالحکومت سے جاری کیا جائے گا۔ مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ منصوبے کا مقصد ملک میں نجی شعبے کی تمام کمپنیوں اور انفرادی طور پر متاثرہ صارفین کو موجودہ قرضوں پر اصل ادائیگیوں سے عارضی چھوٹ کی فراہمی اور سہولیات فراہم کرنا ہے۔ پاکستان پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے، تحریک انصاف کی حکومت نے دوست ممالک اور آئی ایم ایف سے حاصل کیے گئے نئے بیل آئوٹ پیکج کے ذریعے قرضوں کی ادائیگی کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ کرونا ایک آفت ہے اور اس نے پوری دنیا کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ امریکہ، چین،متحدہ عرب امارات اور یورپی ممالک کی معاشی حالت پاکستان سے کئی گنا اچھی ہے۔ یہ ممالک کرونا کے باعث بند ہونے والے کاروبار اور بیروزگار ہونے والے افراد کی مدد کی سکت رکھتے ہیں۔ مسئلہ پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک کا ہے کہ وہ قرضوں میں جکڑی معیشت کی سانس بحال رکھیں یا کرونا کے باعث پہنچنے والے معاشی و سماجی نقصانات کو پورا کرنے کی سعی کریں۔ تمام ممالک نے کرونا کے اثرات سے اپنی معیشت کے متاثرہ شعبوں کی بحالی کو پیش نظر رکھ کر امدادی پیکج ترتیب دیا۔ پاکستان کی معیشت ذرا سے تیز جھونکے سے متاثر ہو جاتی ہے۔ ایک ایسی معیشت جہاں ہوا بازی کا شعبہ اور قومی فضائی کمپنی پہلے سے خسارے کا شکار ہو، جہاں چار ہزار سے زاید صنعتی یونٹ بند پڑے ہوں، جہاں گزشتہ کئی عشروں سے صحت اور تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہ کیا گیا۔ نچلے طبقات گزشتہ کئی حکومتوں کی جانب سے نظرانداز رہنے کی وجہ سے روٹی، کپڑا اور مکان کی بنیادی سہولتوں سے اب تک محروم چلے آ رہے ہیں۔ ایسے میں دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ اور 2010ء سے 2014ء تک آنے والے مسلسل سیلابوں نے معیشت کو پے در پے نقصانات سے دوچار کیے رکھا۔ ہماراانتظامی اور مالیاتی ڈھانچہ اس قابل نہیں کہ اپنے طور پر کرونا جیسے چیلنجز سے نمٹ سکے۔ لہٰذا امدادی پیکیج ترتیب دیتے وقت ضروری ہے کہ ایک طرف پیداواری شعبے کی صلاحیت کو کم نہ ہونے دیا جائے اور دوسری طرف جن طبقات کو اس وبائی بحران میں نقصانات کا سامنا ہے ان کو سہارا دیا جائے۔ یہ قابل تعریف امر ہے کہ حکومت دیہاڑی داروں کے روزگار کے لیے فکر مند ہے۔ وزیر اعظم مکمل لاک ڈائون سے گریز اسی وجہ سے کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس سے غریبوں کا روزگار متاثر ہو گا۔ موجودہ حالات کا تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہو گی کہ غریب اور دیہاڑی داروں کے لیے جو مشکلات پیدا ہونا تھیں وہ ہو چکی ہیں۔ ایک اور معاملہ 70لاکھ افراد تک امدادی پیکج پہنچانے کا ہے۔ سرکار کی طرف سے جب بھی غریب طبقات کی مدد کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے تو اس میں نادرا کے ریکارڈ سے اندازہ کیا جاتا ہے کہ کون مستحق ہے۔ دوسرا طریقہ برسراقتدار پارٹی کی مقامی تنظیموں کی مدد سے مستحق گھرانوں کی نشاندہی کا آزمایا جاتا ہے۔ نادرا کا ریکارڈ غلطیوں سے بھرا ہے۔ پی ٹی آئی کی مقامی تنظیمیں اکثر جگہ غیر فعال ہیں۔ اس صورت حال میں بیوائوں، بے سہارا اور مستحق خاندانوں کا حکومت کی نیک نیتی سے ترتیب دی گئی سکیم سے فائدہ اٹھانے کے امکان کم ہو سکتا ہے۔ وفاقی وزیر خوراک خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ ملک میں خوراک کا ذخیرہ ضرورت سے زیادہ موجود ہے۔ ان حالات میں حکومت کی بہتر انتظامی کارکردگی اور مستحق افراد تک رسائی سے امدادی پیکج کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔