دن مشقت میں اگر تم نے گزارا ہوتا رات کا چین تمہیں ہم سے بھی پیارا ہوتا آج دل چاہا کہ وفاقی محتسب کی کارکردگی پر قلم اٹھایا جائے مگر کارکردگی میں کام کا عمل دخل ہے وگرنہ تو کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ۔ بات یوں ہے کہ ہمارے ہاں عرف عام و خاص میں کام کرنے والے کو کمی کہتے ہیں اور گدھا سمجھتے ہیں اور جو حرام خور ان کمیوں یا کامیوں سے اپنا پیٹ اور اپنی تجوریاں بھرتا ہے وہ صاحب اور باس کہلاتا ہے یعنی کمائے گی دنیا اور کھائیں گے ہم۔ سچی بات یہی ہے کہ ہمیں جب کسی کی کارکردگی یا اعلیٰ کام کا علم ہوتا ہے تو ہمیں ایسا کرنے والے پر ترس آتا ہے کہ یہ کیا احمقانہ سرگرمی میں وقت اور اپنا آپ برباد کر رہا ہے۔ ایسی معصوم اور کم فہم تنظیمیں بھی ہیں جیسے الخدمت، اخوت یا غزالی ٹرسٹ چلیے تمہید ختم ہوئی اب ذکر کرتے ہیں وفاقی محتسب کے محکمے کی، بات کرتے ہیں ان کے کام کی پہلے غالب کا شعر پڑھ لیں: عشق نے غالب نکما کر دیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے ہمیں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا فون آیا کہ ان کا تبادلہ نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد سے وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں ہو چکا ہے ۔ اب حقیقت یہ ہے کہ انعام الحق جاوید کی بات کو پھینکا نہیں جا سکتا کہ انہوں نے نیشنل بک فائونڈیشن کے حوالے سے ناقابل یقین حد تک کام کر کے اپنا اعتبار بنایا ہے۔ اس کے بعد اس محکمے کی طرف سے نیوز بلیٹن بھی مجھے ڈاک کے ذریعہ مل گئے۔ مزید برآں برادر سید عارف نوناری کے کالم سے تصدیق بھی ہو گئی ساری باتوں کے باوجود میرے لئے یہ حیرت کا باعث ہے کہ ہمارا کوئی محکمہ کام اور پھر اتنا کام کر رہا ہے اور پھر یہ کہ حکومت اسے اتنا کام کرنے کی اجازت کیسے دے رہی ہے۔ کس قدر حیرت ناک اور اچھنبے کی بات ہے کہ آپ خالی کاغذ پر وفاقی سرکاری اداروں میں سے کسی بھی ادارے کے خلاف شکایت لکھ کر وفاقی محتسب کو بذریعہ ای میل یا کسی بھی طرح بھیج سکتے ہیں۔مثلاً بجلی سوئی گیس نادرا پاکستان ریلوے پوسٹ آفس یا کوئی ادارہ ہر شکایت فیصلہ ساٹھ دن میں کر دیا جائے، کم از کم مجھے تو یہ جان کر بھی یقین نہیں آتا۔ یہاں تو آپ کسی محکمے میں چلے جائیں کوئی شنوائی نہیں اور تو اور آپ اپنی حفاظت کے لئے محافظوں کے پاس چلے جائیں تو سمجھو آپ غیر محفوظ ہو گئے۔ جبکہ محتسب اعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ ان کے ہاں کسی کی ایک پائی بھی خرچ نہیں ہو گی سید طاہر شہباز ہزاروں درخواستیں نمٹا چکے ہیں میں 1122 والوں کی نیک نامی سنی تھی اور عملی طور بھی ان کو پرکھا بھی وہ ہمارا فخر ہیں۔ اب وفاقی محتسب کا علم ہوا ایک اور ششدر کر دینے والی بات یہ کہ ان کی کارکردگی دیکھتے ہوئے صدر پاکستان اور شاید وزیر اعظم کی طرف سے بھی ایک ہارڈ ٹاسک دیا گیا کہ وہ تھانوں اور جیلوں کے اندر بہتری لانے کے لئے کام کریں اور اس حوالے سے سید صاحب متعلقہ آفیسرز کو ملے اور آپ بھی حیران ہوں گے کہ وہاں بھی صحت مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہمارا ہیرو بلکہ سپر ہیرو ہو گا جو صرف پولیس کو ہی ٹھیک کر دے ۔ وہاں تو فوج بھی بے بس نظر آتی ہے ایک منظر مجھے کبھی نہیں بھولتا اور میں یہ حلفیہ بیان کر رہا ہوں ایک حساس جگہ میں اور میرا پروڈیوسر ایک ایس ایچ او کے پاس بیٹھے تھے ایک سپاہی ترلے ڈال رہا تھا کہ وہ اسے آزمائے تو بہی وہ کیسے باہر سے پیسے بنا کر لاتا ہے یہ رمضان کا مہینہ تھا میں نے کانوں کو ہاتھ لگا لئے۔ کیا کروں میرے پیارے قارئین دل دکھتا ہے کہ جن پر ہمارا تکیہ ہوتا ہے وہی پتے ہوا دیتے ہیں اب وفاقی محتسب کی کارکردگی کا معلوم ہوا تو یقین کرنا مشکل ہو گیا،نہیں کہ محکموں میں تنخواہ کے علاوہ جو نیک نامی اور عزت حاصل ہوتی ہے وہ بے مول ہے اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔ یہ سوچ اور شعور کی بات ہے یہ اس وقت ہے جب کوئی اپنی عزت سے آشنا ہو جائے اور اس سے کہیں بلند ہے کہ اپنے خالق کے دربار میں کوئی عزت پا جائے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ فرشتوں کے سامنے یہ تذکرہ نہ کرتا یہ کہ یہ شخص میرے ڈر سے رشوت ٹھکرا رہا ہے اسے دیکھو یہ خالصتاً میری رضا کے لئے کام کر رہا ہے۔بہرحال وفاقی محتسب کے ہاں احتساب کا عمل جاری ہے۔ انصاف میں تاخیر بھی نہیں ہوتی جس کی کہیں شنوائی نہیں یہاں ہی ٹرائی کر کے دیکھ لے۔2019ء کے دوران 73050درخواستیں موصول ہوئیں 23281شکایات پر وفاقی محتسب نے وفاقی اداروں کو ہدایات و سفارشات جاری کیں ان میں سے 20656پر عملدرآمد ہو چکا۔ ان فیصلوں کے خلاف صدر پاکستان کو اپیل بھی کی جاتی ہے مگر زیادہ تر صدر محتسب اعلیٰ کے فیصلوں کو برقرار رکھتے ہیں۔2019میں صرف 23اپیلیں منظور ہوئیں اب اس کام کو چھوٹی چھوٹی سطح تک پھیلایا جا رہا ہے سارا کمپیوٹرائزڈ نظام ہے۔ سپریم کورٹ نے بطور خاص اس محکمے کو دوسرے محکموں میں بہتری لانے کے لئے اور اصلاح کیلئے تجاویز اور معاونت کا کہا ہے۔ خاص طور پر تھانوں کو عوام دوست بنایا جائے اسلئے کہ تھانوں تک رسائی رکھنے والے عرف عام میں ٹائوٹ کہلاتے ہیں۔ عوام بے چارے تو تھانے کے قریب سے بھی بھاگتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی نمائندوں کو یعنی سول سوسائٹی سے لوگوں کو ساتھ ملایا جائے اور یہی کام محتسب اعلیٰ کر رہے ہیں۔علاوہ ازیں پنشنرز کے لئے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں کہ انہیں پنشن آسانی سے پہنچ سکے اور بھی بہت سے کام یہ محکمہ کر رہا ہے۔ ایک پائلٹ پراجیکٹ بھی شروع کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو ان کی دہلیز پر انصاف پہنچایا جائے۔ محتسب کے آفیسرز تحصیل اور ضلع ہیڈ کوارٹرز پر خود جا کر شکایات کا ازالہ کریں گے۔ فوری انصاف میں اگر 30دن میں شکایت حل نہیں ہو گی تو یہ خود بخود کمپیوٹرائزڈ سسٹم میں آ کر پراسس میں آ جائے گی۔ ایشیائی ممالک میں ایشین امبڈسیمن ایسوسی ایشن (اے او اے) کے نام سے تنظیم بنائی تھی اس کے ارکان کی تعداد 44ہے۔ 1996ء سے 2010ء تک اے اواے کے صدر کا منصب پاکستان کے پاس رہا۔ شکایات کرنے والے جان لیں کہ تمام بڑے شہروں میں محتسب کے دفاتر ہیں ہیلپ لائن 1055ہے بچوں کی شکایات کے لئے 1056فون نمبر 0251-9213886- 7فیکس 92-5117224اور پتہ ان کا ہے 36شاہراہ دستور بالمقابل سپریم کونسل آف پاکستان G-5/2اسلام آباد۔ قتیل شفائی نے کہا تھا: اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا