اسلام آباد سے روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق ایک ماہ کے دوران کابینہ کے اجلاسوں میں کئے گئے۔ 46 فیصلوں میں سے 30 پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور اس سلسلے میں بیورو کریسی کی طرف سے رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس باقاعدگی سے ہو رہے ہیں جن میں وزیر اعظم خود شریک ہوتے ہیں۔ یہ پہلی ایسی حکومت ہے جس میں کابینہ کے تواتر کے ساتھ اتنے اجلاس ہو چکے ہیں جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ ظاہر ہے کابینہ کے اجلاس ترجیحی امور و معاملات کے بارے میں فیصلے کرنے اور ان پر عملدرآمد کے حوالے سے بلائے جاتے ہیں لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ 46 فیصلوں میں سے 30 پرپیش رفت کے بارے میں متعلقہ وزارتوں کی جانب سے کوئی جواب موصول ہی نہیں ہوا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی کابینہ میں مستحق قیدیوں کی سزائوں کے خاتمے یا کمی، جنگلات کی کٹائی روکنے، شمسی چولہوں کی فراہمی کے لئے فیزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے، گریڈفور کے ملازمین کی تقرری کے قواعد، کم آمدنی والے ملازمین کے لئے عمارتوں کی تعمیر کے منصوبے، خلیجی ممالک میں پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے بارے میں معلومات، گھریلو ملازمین کے تحفظ کے اقدامات سمیت دیگر معاملات پر کابینہ نے جو فیصلے کئے ہیں ان پر فوری اور یقینی عملدرآمد ہونا چاہئے اور اس سلسلہ میں تمام متعلقہ وزارتیں اپنی اپنی ذمہ داری پوری کریں، جہاں بیوروکریسی رکاوٹ بن رہی ہے، اس کے بارے میں کابینہ کے آئندہ اجلاسوں میں لائحہ عمل بنایا جائے تاکہ تمام معاملات و مسائل طے شدہ طریق کار اور وقت کے مطابق حل ہو سکیں۔