وفاقی کابینہ نے 7.8ارب روپے کے رمضان پیکیج کی منظوری دیدی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں یوٹیلیٹی سٹور پر فروخت کے لئے موجود 19اشیاء پر سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر کے مطابق یوٹیلیٹی سٹور پر چینی کی مد میں 40روپے فی کلو‘ چاول پر 10روپے فی کلو‘ خوردنی تیل پر 20روپے فی لٹر اور کھجور پر 20روپے فی کلو سبسڈی دی جائے گی۔ مشکل مالی حالات نے حکومت کو ایسے تکلیف دہ فیصلے کرنے پر مجبور کیا ہے جن سے عام آدمی متاثر ہو رہا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ‘ بجلی اور گیس کی قیمت میں اضافہ ہر شے کے نرخوں میں بڑھاوے کا سبب بن رہا ہے۔ عام آدمی تجارتی خسارے‘ قرضوں کے اثرات‘ آئی ایم ایف کی شرائط‘ ایف اے ٹی ایف اور معاشی بہتری کے تکنیکی نکات سے واقف نہیں۔ اس کی نظر میں حکومت اور اس کے اداروں کی کارکردگی کا معیار یہی ہے کہ روزمرہ استعمال کی اشیا کم نرخوں پر دستیاب ہوں۔ حکومت اشیا کی سستے داموں فراہمی یقینی بنانے کے لئے کئی طرح کے اقدامات اٹھاتی ہے۔ طلب و رسد میں توازن پیدا کیا جاتا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے‘ کسی شے کی کمی ہو تو بین الاقوامی مارکیٹ سے سستے داموں پر درآمد کر لی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے ضروری کام مقررہ نرخوں پر اشیائے ضروریہ کی فروخت یقینی بنانے کا نظام ترتیب دینا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ایک تجربہ کیا گیا۔ جگہ جگہ راشن ڈپو قائم کر دیے گئے۔ راشن کارڈ فراہم کیا گیا جس پر خاندان کے افراد کی تعداد درج ہوتی۔ ان افراد کی اوسط ماہانہ ضرورت کا تخمینہ لگا کر چینی‘ گھی اور آٹا فراہم کیا جاتا۔ آٹے کی معاملے میں کچھ نرمی موجود تھی کیونکہ اس کی کسی طرح کی کمی نہ تھی لیکن چینی اور گھی اگر زاید الضرورت خریدنا ہوتا تو لوگ خاصے پریشان ہوتے۔ پھر حکومت نے یوٹیلیٹی سٹور کا ادارہ قائم کیا۔ ملک بھر میں حکومتی سرپرستی میں یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن کی شاخیں کھولی گئیں۔ یوٹیلیٹی سٹور پر صارفین کو کنٹرول نرخوں پر روز مرہ استعمال کی اشیا دستیاب ہو جاتیں۔ یہ ادارہ عوام کو سہولت فراہم کر رہا تھا لیکن راشن ڈپو کی طرح سیاسی مداخلت اور ضرورت سے زاید بھرتیوں نے اس کی کارکردگی کو متاثر کیا۔ اس مفید ادارے کو سستی اشیا کی فروخت کی جگہ سیاسی جاب ایکسچینج کے طور پر برتا گیا۔ نتیجہ یہ کہ بحران کا شکار ہوا اور اسے ختم کرنے کی بابت سوچا جانے لگا۔ پی ٹی آئی حکومت نے یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن کو بند کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن گزشتہ برس کورونا کی وبا کے دوران اس کی افادیت کا ادراک ہونے پر ادارے کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ گزشتہ برس ملک میں وافر گندم اور چینی ہونے کے باوجود عوام کے لئے ان کا حصول مشکل رہا۔ حد یہ کہ حکومت نے آٹے کی کمی دور کرنے کے لئے جب باہر سے گندم درآمد کر کے اس کی سپلائی بہتر بنانے کی کوشش کی تو ذخیرہ اندوزوں نے مارکیٹ میں کمی پیدا کر دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اشیا کی دستیابی ہی نہیں ان کی سپلائی کا نظام بھی خراب ہے جسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔رمضان المبارک کے دوران بعض روائتی پکوانوں اور مشروبات کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔کھجور اور دیگر پھلوں کی طلب میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ گزشتہ برس پچاس سے ساٹھ روپے درجن میں ملنے والا کیلا 180روپے فی درجن فروخت ہوتا رہا۔ مشروبات‘ غذائی اجناس‘ بیسن‘ سرخ مرچ‘ دھنیا‘ خوردنی تیل سمیت بہت سی اشیا مہنگی کر دی گئیں جو سحری و افطاری کے دوران روزہ داروں کی خوراک کا حصہ ہوتی ہیں۔ رمضان المبارک اللہ کی رحمتوں کا مہینہ ہے۔ مسلمان اس مقدس ماہ میں اپنے عمل اور جسم کو پاکیزہ کرتے ہیں‘ روزہ نفس کی تطہیر کرتا اور روح کو پاک بناتا ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی پر زور دیا جاتا ہے۔ پرچون فروش‘ تھوک فروش‘ ڈسٹری بیوٹر اور کارخانہ دار صرف تاجر نہیں مسلمان بھی ہیں۔ اس بات کا ابلاغ ان تاجروں تک جانا چاہیے کہ اللہ کے عبادت گزار اور روزہ دار بندوں کے لئے اشیاء کی فراہمی روک کر یا مہنگے نرخوں فروخت کر کے وہ خدا کے حضور خود کو کیوں گناہگار بناتے ہیں۔ وفاقی حکومت کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے رمضان المبارک میں 7ارب روپے کے رعائتی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ صوبائی حکومت کے اس پیکیج کی رو سے رمضان بازار میں 10کلو آٹے کا تھیلا 300روپے میں دستیاب ہو گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کا حکم بھی دیا ہے۔ سندھ ‘ کے پی کے‘ بلوچستان‘ گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی اسی طرح کے صوبائی پیکیج متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔وفاقی حکومت نے کورونا کی وبا کے دوران احساس کفالت پروگرام کے ذریعے بڑی رقوم ضرورت مند خاندانوں میں تقسیم کی ہیں‘ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد کئی طرح کے ٹیکس جمع کرنے کا اختیار صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے۔ اس لئے صوبوں کے مالی وسائل زیادہ ہو چکے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اشیاء کے نرخ متعین کرنا اور مقررہ نرخوں پر فروخت یقینی بنانے کیلئے ساری ذمہ داری صوبائی حکومت پر عاید ہوتی ہے‘ صوبائی حکومتیں جب اپنا کام احسن انداز میں انجام نہیں دیتیں تو وفاقی حکومت پر تنقید بڑھنے لگتی ہے۔ یوں مقررہ نرخوں پر اشیا کی فروخت یقینی بنانے کیلئے صوبائی حکومتوں کو رمضان المبارک سے پہلے سٹاک کے درست اعداد و شمار ترتیب دے کر ضلعی انتظامیہ کو ہر صورت سرکاری نرخوں کی پابندی کرانے کا ہدف دینا چاہیے۔کسی ضلع کی انتظامیہ یا صوبائی حکومتوں کی بدانتظامی کی صورت میں ناصرف رعائتی پیکیج منافع خوروں کی جیب میں جا سکتا ہے بلکہ عوام کی مشکلات اور شکایات میں ہونے والا اضافہ سیاسی مسائل کی وجہ بن سکتا ہے۔