کسی چوک چوراہے پر گاڑی روکیں تو ہاتھوں میں پھول لیے یا پھر شیشہ صاف کرنے کا سامان لیے کوئی معصوم بچہ یا بچی دیکھ کر سب کے دل پر ہاتھ پڑتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں اس طرح سے روزگار کماتے بچوں کی تعداد میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ پہلی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ اور دوسری بڑی وجہ غربت کا بڑھنا ہے۔ جہالت اور غربت میں کون پہلے ہے اس کا تعین کرنا مشکل نہیں۔ اگر انتخاب روٹی اور کتاب میں ہو تو فیصلہ ہمیشہ روٹی کے حق میں ہو گا اور یہ بھی اٹل ہے کہ بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے تو پھر ان مجبور اور بے بس بچوں اور والدین سے یہ توقع رکھنا کہ و ہ علم کی شمع کے پروانے بنیں گے محض دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے، اسی لیے آئین پاکستان کا آرٹیکل 25A ریاست پاکستان کو پابند کرتا ہے کہ وہ 5 سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم مہیا کرے۔شرمناک حقیقت یہ ہے کہ تقریباً دو کروڑ اسی لاکھ بچے آج بھی سکول سے باہر ہیں اور یو نیسف کے مطابق پاکستان سکول سے باہر بچوں کی تعداد میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ہمارے بعد صرف نائیجیریا میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ پاکستان جی ڈی پی کا 2.9 فیصد تعلیم پر صرف کرتا ہے جوکہ خطے میں بھی سب سے کم اور اسی جی ڈی پی کے حامل ممالک کی فہرست میں بھی سب سے کم ہے۔ بدقسمتی سے اٹھارویں ترمیم کے بعد اب یہ صوبائی معاملہ ہے جس پر ہر صوبہ اپنی ترجیح کے لحاظ سے کام کرنے کے لیے خودمختار ہے۔ ملک میں تعلیم ادھوری چھوڑ جانے والے بچے 39 فیصد ہیں جبکہ صرف 68 فیصد پرائمری سکول تک تعلیم مکمل کرپاتے ہیں اور سیکنڈری سکول جانے والے بچے صرف 37 فیصد ہیں جن میں زیادہ تعداد لڑکوں کی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں خواندگی کی شرح میں نمایاں فرق ہے۔ اسلام آباد میں 98 فیصد جبکہ خیبرپختونخوا کی طور گڑھ ڈسٹرکٹ میں صرف 23 فیصد ہے۔ قبائلی علاقہ جات میں خواتین میں خواندگی کی شرح صرف 9.5 فیصد ہے۔ ورلڈ بینک کی ہیومن کیپیٹل انڈکس 2020ء کے ا شاریے کسی بھی لحاظ سے مثبت قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ اس انڈکس کے مطابق چار سال کی عمر میں سکول جانے والا بچہ اپنی اٹھارویں سالگرہ پر تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے 14 سال کے بجائے ساڑھے نو سال سکول جانے والے بچے کی قابلیت کے برابر ہو گا اور تعطیلات نکال کر سکول جانے کا عرصہ صرف پانچ سال رہ جائے گا نتیجتاََ پاکستان میں پیدا ہونے والا بچہ اگر مکمل صحت مند اور تعلیم یافتہ ہو بھی جائے تواستعداد کے لحاظ سے صرف 41 فیصدکار آمد ہو سکے گا جبکہ کسی بھی دوسرے ملک میں پیدا ہونے والا بچہ 56 فیصد تک مفید یا بارآور ہوسکتا ہے ۔پاکستان میں نوکری کے قابل صرف 50 فیصد نوجوان برسرروزگار ہیں جوکہ ایشیا اور غریب ممالک میں سب سے کم تناسب ہے۔ تعلیمی معیار کی بات کی جائے تو تعلیمی پسماندگی میں بھی پاکستان کی صورتحال خطے میں سب سے بدتر ہے۔ دس سال کی عمر کے 75 فیصد بچے پرائمری سکول کے اختتام تک ایک آسان مضمون پڑھنے کے قابل بھی نہیں ہو سکتے جس کا اندازہ Timss کی رپورٹ سے بھی ہوتا ہے جو پچھلے پچیس برسوںسے ریاضی اور سائنس کے مضامین میں آٹھویں اور چوتھی جماعت کے طالب علموں کی تعلیمی استعداد ماپتاہے۔ Timss کے مطابق پاکستان سے چوتھی جماعت کے بچے پہلی بار اس کا حصہ بنے اور اس تجزیاتی رپورٹ کے مطابق 64 شریک ممالک میں سے پاکستان سب سے نیچے رہنے والا ملک تھا۔ ہمارے بعد صرف فلپائن کے بچے ریاضی اور سائنس کے بنیادی سوالات کے جواب نہ دے سکے اور اس کی بنیادی وجہ بچوں پر صرف کتابوں کا بوجھ لاد دینا اور نصاب تعلیم کے نقص کے علاوہ اساتذہ کی مناسب ٹریننگ نہ ہونا بھی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یکساں نصاب تعلیم کی بات تو کی جا رہی ہے لیکن اساتذہ کی تعلیمی قابلیت اور پڑھانے کی استعداد اور ہنر بڑھانے کی طرف حکومتی توجہ مفقود ہے۔ لہٰذا مستقبل قریب میں ان اشاریوں میں بہتری کا امکان مشکل دکھائی دیتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ناقص تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ تعلیم برائے ملازمت کی شرط بھی پورا نہیں کرتا اور صنعتوںکے ساتھ نظام تعلیم کی ہم آہنگی کا فقدان ہونے کے باعث فارغ التحصیل طلباء و طالبات میںملازمت کے لئے درکار بنیادی ہنر کی کمی ہوتی ہے ۔ نتیجتاً پچاس فیصد پڑھے لکھے بیروزگار معیشت پر بوجھ بن جاتے ہیں اور بہت سے والدین کے لیے ایسی مثال بھی کہ پڑھ لکھ کر بھی کیا کرلیں گے۔ تعلیم ہماری ترجیحات میں کہاں ہے اس کا اندازہ تعلیم پر صرف کئے جانے والے بجٹ سے لگانا مشکل نہیں جوکہ بڑھنے کے باوجود صرف 2.6 فیصد ہے جس کا 88 فیصد پرائمری اور سیکنڈری تعلیم پر صرف ہوتا ہے جبکہ صرف 12 فیصد اعلیٰ تعلیم پر جوکہ ناکافی ہے۔ تعلیمی پسماندگی سے متعلق ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کورونا وبا سے پیدا معاشی مشکلات کے باعث مزید 9 لاکھ 30ہزار بچے سکول چھوڑ سکتے ہیں جس سے آئندہ بیس برسوں میں لگ بھگ 155 بلین ڈالر کا نقصان ہوگا۔ اس نقصان سے بچنے کے لیے فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان بچوں کو سکول واپس لایا جا سکے۔ پاکستان مسلم لیگ کے دور میں بھٹہ مزدور بچوں کو سکول داخلے پر فی کس 1000 روپیہ ہر مہینے دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے بھٹہ پر کام کرنے والے بچوں کی تعداد میں نمایاں کمی دکھائی دی لیکن موجودہ حکومت نے یہ وظائف بند کردیئے جس کی وجہ سے وہ تمام بچے سکول چھوڑ کر دوبارہ بھٹوں پر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کورونا میں بہت سے والدین بیروزگار ہوئے اور کاروباری مشکلات کے باعث دو وقت کی روٹی پوری کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے حکومت وقت سے مدد درکارہوگی جوکہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ملک میں بہت جلد نئے بجٹ کی تیاریاں شروع ہو جائیں گی ۔ پاکستان تحریک انصاف کو اپنے منشور کے مطابق ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے کی ابتدا تعلیمی ایمرجنسی سے کرنی ہوگی اور اپنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں تعلیم کو خاطر خواہ حصہ دینا ہوگا تاکہ ریاست پاکستان سولہ سال کی عمر تک کے تمام بچوں کو مفت ا ور معیاری تعلیم کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری کر سکے اور روٹی‘ کپڑا اور مکان کے علاوہ تعلیم کو بھی ہر پاکستانی کے آئینی حق کے طور پر نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ مہیا بھی کیا جا سکے۔ پاکستان ایک’’ جوان ‘‘ملک ہے جس کی ساٹھ فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے اور تقریباً 100 ملین آبادی بیس سال سے کم عمر ہے ۔یہ ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔ مغربی و یورپی ممالک سمیت جاپان و کوریا میں نوجوان آبادی کے تناسب میں کمی وہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے انہیں امیگر یشن قوانین میں نرمی کرنی پڑتی ہے لیکن اگر ان پاکستانی نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار نہ مل سکے تو یہ ایک ٹائم بم کی طرح ہیں۔ آئندہ برسوں میں یا تو پاکستان ان تعلیم یافتہ ذہین‘ طاقتور اور باصلاحیت نوجوانوں کی بدولت دنیا ئے عالم میں جگمگائے گا یا انہی کے ہاتھوں غربت‘ افراط زر اور مختلف جرائم کی بدولت کمزور ممالک کی فہرست میںپڑا رہ جائے گا۔ اپنی تقدیر بدلنے اور فیصلوں کا وقت اب اور ابھی ہے ورنہ پھر کبھی نہیں۔۔۔ کہ وقت افراد و اقوام کا انتظار نہیں کیا کرتا۔