ایک روایتی مشق جاری ہے ان لوگوں کی ذہنی عداوت کی، جن کا سرمایہ فکر الجھنا اور الجھانا ہے۔ دلائل کا انبار اور گفتگو کا پیرایہ بہت دلفریب ہوتا ہے۔ کاروبار معاش ہے‘ اسی پر جیتے ہیں۔ الفاظ کا تیور جلے بھنے کلیجے سے برآمد ہوتاہے۔ قارئین رنگ مزاح میں ایک عجیب طرز قوس قزح کا نظارہ کرتے ہیں۔ پھر ذرا دیربعد غروب آفتاب کا وقت ہو جاتا ہے۔ یہ ایک مستقل رویہ ہے ہمارے ان قلم بازوں کا جو روزانہ نئی جلوہ طرازی کو ایمان صحافت کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کے ہاں دادفن کا ایک اندازِ بلیغ ہے۔ بالکل بے فکرے پن سے بھر پور رویہ ہے۔ ہر بات کوبتنگڑ اور ہر موقع کو فساد پرور بنانا ان کی فنی بلاغت کا تقاضا ہوا کرتا ہے۔ آخر کو تنگ آکر ہوشمند قارئین ان کی نگارشات سے ہٹ کر ان کی طرز بے خیالی اور دھڑے بندی کی پوجا پر سوچنا شروع کرتے ہیں۔ہمارے قومی اور ملی مسائل مرور وقت کے ساتھ نئی نئی بھیانک اور تعجب خیز شکل میں برآمد ہوتے ہیں۔ اپنے دین اور وطن سے اخلاص رکھنے والے سادہ فکر عامتہ الناس اپنے بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ سیاست کی پر پیج راہوں کو مزید پیچیدہ کرنے والے ہر سطح کے کاریگر اپنے اپنے کنوئوں میں حسب طاقت ‘ حسب فن اور حسب شعور شور اٹھاتے ہیں۔ اپنی ذات کو قوم کا اہم ترین مسئلہ باور کرانے کی مشق کو عوام اور دستور کی حفاظت کا نام دینا ان کا وظیفہ سیاست ہے۔ اپنی خواہشات کی تکمیل کو قومی ضروریات اور اپنی طفلانہ ضد کو مردانگی دور اں کا عنوان دینا اور اس پر بیان بازی کا سامانِ حشر برپا کرنا بھی ان کی زندہ سیاست کا دوسرا نام ہے۔ پرویز مشرف غداری مقدمہ پر جن لوگوں نے جو کچھ کیا اور پھر جو کچھ کہا گیا اور اب جو کچھ لکھا جا رہاہے، قومی یکجہتی ایک بار پھر سے نئے متنازعہ موضوعات کی زد میں آ کر فکری انحطاط کی زد میں ہے۔ غلط افراد کی نشاندہی بہت ضروری ہے۔روزانہ کی بین الاقوامی خبریں‘ بین الاسلامی خبریں اور ہماری سرحدات پر منڈلاتے خطرات‘ پھر مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کے اقدامات‘ برصغیر اور ایشیا میں مسلمانوں کے اجتماعی حقوق سلبی کے نئے لائحہ عمل کا سلسلہ اتنا مربوط ہے کہ کسی دانش مند کو شخصی اور جماعتی اختلافات اور کھچائو پر سوچنے کی مزید حاجت باقی نہیں رہتی۔وقت کا اہم ترین موضوع مسلمانان عالم کی کسمپرسی اور بین الاقوامی جبرو تشدد سے اور پھر مقامی سطح پر پاکستان کے عوام کا وہ معاشی استحصال ہے جو روایتی سیاستدانوں اور مختلف اداروں‘ مختلف وزارتوں اور مختلف محکمہ جات میں براجمان ذمہ داران کرتے ہیں اور عوام کا خون نچوڑنے کے لئے وہ عوام کو پھر سے نئی بازی میں مبتلائے عذاب کرتے ہیں۔ ان صاحبان اختیار کے نزدیک عوام بھیڑیں ہیں اس لئے وطن عزیز کے با اختیار حلقوں کی کالی بھیڑیں ہم شکل اور ہم آوازی کا فائدے اٹھاتے ہوئے عوام پر بھیڑیا بن کر ٹوٹتے ہیں۔ روزانہ اہل درد صاحبان نگارشات چونکا دینے والے حرف حکایت رقم کرتے ہیں‘ دل مجروح کی صدائے بازگشت بار بار گونجتی ہے۔ بین الاقوامی سازشوں سے آگاہ کرتے ہیں اور درد سے معمور فلسطینی مجبوریوں کی تصاویر‘ تشدد آمیز بھارتی فوجیوں کی کارروائیاں اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ مقہوراور مجبور بھارتی مسلمانوں کی بے بسی اور ذلت کی خبریں چینلز اور اخبارات کا جلی عنوان بنتی ہیں اور پاکستان کے سادہ مخلص دین پسند اور وطن پرست عوام کے کلیجوں کو چھلنی کرتی ہیں۔ یار لوگ اپنی وطن دشمن خباثتوں پر ردائے عصمت ڈالنے کے لئے بیان بازوں اور حرف فروشوں کے جلو میں برآمد ہوتے ہیں۔ ایک روایتی بیان پھر اپنی معصومیت کا ڈھنڈورہ ہوتا ہے۔ہر تازہ روز میں جتنے بھی متنازعہ اقوال و افعال وجود میں آتے ہیں ان کے پس پردہ بدنیت اور قومی قزاقوں کی وہ تمنائے شر ہوتی ہے۔ جس سے قوم کی قسمت کھوٹی ہونے کے تازہ اسباب جنم لیتے ہیں۔ ہر گروہ اور ہر دھڑے ہر حلقے اور ہر تنظیم میں کچھ بدنیت‘ کچھ فسادی اور کچھ مکروفریب کے پتلے خاموشی سے اپنا کام سرانجام دیتے ہیں۔ باقی رہا اکثریت کا معاملہ تو وہ بے چارے اپنے بھول پن اور طبعی جذباتیت کی وجہ سے ہر زندہ باد اور مردہ باد کے ترانے میں شامل ہوتے ہیں۔زبردست کے لئے قانون خاموش ہوتا ہے اور زیردست کے لئے قانون متحرک ہوتا ہے۔ کتنے کتنے بھیانک اجتماعی قتل ہوتے ہیں۔ وقت کے حاکم دو لفظوں میں فیصلہ کن پالیسی کا اعلان کرتے ہیں اور وارثین و لواحقین منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ قاتل کو پناہ تخت حاصل ہوتی ہے۔ کچھ لوگ دلیل سے قتل کرواتے ہیںاور کچھ لوگ نوک قلم سے پروانہ موت جاری کرتے ہیں۔ لوگ موت کا اہتمام کرتے ہیں اور دلیل کے خنجر سے موت کے گھاٹ اتارنے کا یہ سلسلہ نجانے کب سے ہے اور کب تک رہے گا؟قومیں برباد اسی لئے ہوتی ہیں کہ قوم کا تصور اور تصور قوم میں اعتدال و ارتباط خود نگری کا شکار ہو جاتا ہے۔ سزا ثابت ہو جائے تو اس پر عمل درآمد ہی معاشرے کو ہیجان سے نکال لیتی ہے۔ ورنہ الجھائو ہے۔ افراد اور اجتماعی حلقے گتھم گتھا ہوتے ہیں۔ خطیب شہر نظری موضوعات پر بات کرتا ہے۔ سامعین میں سے سرپھرے آوارگان شہراچھلتے ہیں اور الفاظ کے جادوگر اچھالتے ہیں۔ کسی نے قصہ سقوط بغداد رقم نہیں کیا اور اقوام کی داستان زوال بھی لوگ سنانے سے کتراتے ہیں۔ ہر جگہ ایک جیسا ظلم ہے۔ ذرا موسم اور وقت کا فرق ہوتا ہے۔ رنگ بھی اکثر مختلف ہوتا ہے ۔ قوم کے نام پر قوم کو تقسیم کرنا اور انتخابات میں انتخابی اتحاد بنا کر مقتدر لوگوں سے رقم اینٹھنا ہی تو قوم فروشی ہے، ضمیر فروشی ہے۔ یہ اپنی ذات کے اور قوم کے غدار ہیں۔ غداروں کے لئے تاویل فاسد کرنا اور قانون کو بازیچہ اطفال بنانا ہی تو انسانی انصاف اور مظلوموں سے غداری ہے۔ قومی اسمبلی سے اپنے بچوں کو رزق اور نامنصفانہ رزق دلوانا اور پھر شور مچانا کہ یہ اسمبلی ناجائز ہے۔ یہ دن دیہاڑے کی قزاقی ہے۔ قانون شریعت میں قزاق کے لئے کیا سزا ہے؟ کرائے کے ناقد جواب دیں۔جعلی دوائوں کا گھنائونا کاروبار اور ظالم کو مظلوم ثابت کرنا نہایت درجے کا سفلہ پن ہے۔ موت اور شر کی اشاعت کا سب سے بڑا ذریعہ ‘ فساد خلق کی بنیاد ہے۔ بہت بڑی فتنہ انگیزی ہے۔ فتنہ پروری ہے مریضوں کو موت سے پہلے وادی عدم میں اتارنے کا اہتمام کرنے والے سب فتنہ پرور ہیں۔ کتاب آخر نے مبنی بر حق خبر دی کہ الفتنۃ اشد من القتل اور فتنہ تو قتل سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔فتنہ پروری زبان سے ہو یا قلم سے‘ افکار سے ہو یا عمل سے‘ نہایت بری بات ہے۔ خدا کے عذاب کو دعوت دینے کا سبب ہے۔