یہ دعا کا وقت ہے ، اللہ کریم سے ہدایت طلب کرنے کا وقت ہے کیونکہ لاک ڈائون میں نرمی کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ حکومت نے کل سے لاک ڈائون تقریبا ً ختم کر دیا ہے۔جس قسم کی عوام سے اس لاک ڈائون کے خاتمے کے بعد توقعات وابستہ کی گئی ہیں اسکے بارے میں حکومت خوب جانتی ہے کہ یہ صرف توقعات ہی ہیں در اصل احتیاطی تدابیر پر عملدر آمد کے حوالے سے جو حکومتی خدشات ہیں پاکستانی عوام ان پر پوار اترنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔توقعات نہیں تو کم از کم حکومتی خدشات ضرور پورے ہو سکتے ہیں۔ایسی صورت میں ملک اور قوم کو اسکی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ ہمارا قومی مزاج بہت واضح ہے۔ ہم دہائیوں سے نتائج کی پرواہ کئے بغیر کام کرتے چلے آ رہے ہیں اور ہماری تربیت انہی اصولوں پر کی گئی ہے۔ اسکی ایک وجہ ہمارے ہاں علامہ اقبالؒ اور دوسرے قومی شاعروں کے اشعار کو اپنی مرضی کے مطابق تشریح و توجیح کے طور پر پیش کرنا بھی ہے۔ جیسے کہ شعر ہے؛ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میںعشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی اس شعر کی ایک تاریخ ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی نمرود کے ساتھ ایمان و کفر کی کشمکش کا کلائیمکس اس شعر کی بنیاد ہے۔ یہ رب ذوالجلال کی طرف سے اپنے جلیل القدر پیغمبر کا امتحان تھا۔لیکن جس سیاق و سباق میں ہمیں اس بارے میںانتہائی جذباتی وعظ کے ذریعے باور کرایا جاتا ہے کہ اگر ہمارے جدّ امجد نتائج کی پرواہ کئے بغیر آگ میں کود گئے تو ہمارے لئے یہ ایک ابراہیمیؑ سنت ہے۔حق اور باطل کی اس جنگ میں حضرت ابراہیم ؑ نے تمیز واضح کرنے کے لئے خدا کی خوشنودی کے یقین کے ساتھ یہ عمل کیا اور آگ گلزار ہو گئی۔ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ اب بھی ایسا ہو سکتا ہے لیکن اسکے لئے اعلیٰ کردار، حق کی تمیز، بہادری کے ساتھ سچ کے ساتھ کھڑا ہونا اور سب سے بڑھکر خدا پر غیر متزلزل ایمان کی ضرورت ہے۔جس معاشرے میں دوسروں کا حق صلب کرنا ، قانون کو ہاتھ میں لینا، طاقت کے نشے میں کمزور پر کچھ بھی ظلم روا رکھنا،دولت جمع کرنا فیشن اور اسکی نمائش عادت ہو وہاں پر اس قسم کی جذباتی تقاریر کو لوگ اپنی ضرورت کے مطابق ہی سمجھ پائیں گے۔اعلیٰ اخلاقی معیار اختیار کئے بغیر آپ ایسے واقعات کو انکے پیغام کی روح کے ساتھ نہیں سمجھ پائیں گے۔ ُپھر ایک اور مصرعہ جو کسی بھی بے سر و سامانی میں بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے : مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی اس پر منچلوں نے لطیفہ بھی بنا ڈالا کہ ایک ہمارے جیسا نالائق طالبعلم بغیر قلم پینسل کے امتحانی پرچہ حل کرنے میں مشغول تھا، مشغول کیا ہوگا بس تین گھنٹے امتحانی پرچے کا وقت پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہو گا کہ ممتحن نے محسوس کیا کہ یہ طالبعلم کچھ لکھ نہیں رہا بلکہ ادھر ادھر تانک جھانک کر رہا ہے۔ ممتحن نے پوچھا بھئی کیا کر رہے ہو پرچہ حل کرو تو نوجوان نے بتایا کہ اسکے پاس قلم یا پینسل نہیں ہے۔ ممتحن نے سوال کیا کہ پرچہ کیسے حل ہو گا تو طالبعلم نے کمال متانت سے کہا کہ ؛ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی مذاق کی بات اپنی جگہ لیکن ہمارا عمومی رویہ ایسا ہی ہے۔ سڑک پر چلتے ہوئے، گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے، کوئی بھی ایسا کام کرتے ہوئے جس میں خطرہ بدرجہء اتم موجود ہو، ہم نتائج کی پرواہ کئے بغیر کرتے چلے جاتے ہیں اور با لآخر کسی بڑے نقصان کا سامان کر لیتے ہیں۔ لاک ڈائون میں آسانی شاید بہت پہلے پیدا کی جا سکتی تھی لیکن ہمارا بحیثیت قوم عمومی رویہ حکمرانوں کے پیش نظر ضرور ہو گا۔ مکمل لاک ڈائون میں بھی خواتین نے شاپنگ بند نہیں کی، اس بارے میں سوشل میڈیا پر ویڈیوز کی بھرمار ہے۔ اسی طرح سے مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات کے حوالے سے بہت سے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں جہاں لوگ سماجی فاصلے کے حوالے سے ہدایات کو مکمل نظر انداز کر کے اجتماع کرتے رہے۔رمضان کے مبارک مہینے کی برکت سے نمازیوں کی طبیعت میں کچھ ٹھہرائو آیا ہے اوراب بہت کم اطلاعات سماجی فاصلے کی ہدایات کی خلاف ورزی کے حوالے سے موصول ہو رہی ہیں۔ اگر ہم اسی انداز میں معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے لاک ڈائون میں نرمی کے بعد سماجی فاصلے کے حوالے سے ضروری احتیاط کریں۔ اور اس بات کا ادراک کریں کہ اب کرونا وائرس سے پہلے والی معمول کی زندگی ممکن نہیں ہے تو اس کے فوائد ہر خاص و عام کو ہونگے۔ وہ تمام دیہاڑی دار، ریڑھے اور ٹھیلے والے، چھوٹے دکاندار اورکاروباری حضرات کی معاشی زندگی کی ڈور اسی سے بندھی ہے۔جہاں یہ ان تمام طبقوں کے لئے ایک بہت بڑا ریلیف ہے وہیں یہ سب سے بڑاخطرہ بھی ہے۔ اگر ہم ان تمام ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اس لاک ڈائون کی نرمی کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہتے ہیںتو حکومت سمیت ہر کسی کی فتح ہے اور اگر کسی کو شکست ہو گی تو اس موذی مرض کو جس نے دنیا بھر میں اودھم مچا رکھا ہے۔ اگر ہم نے لاک ڈائون کی اس نر می کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ویسارویہ اختیار کیا جیسا بلیک فرائڈے یا کسی بھی بڑے برانڈ کی دکان پر سیل کے وقت ہوتا ہے جہاں دھکم پیل سے لے کر مار پیٹ تک چل رہی ہوتی ہے تو پھر یقین رکھیںکہ حکومت اس لاک ڈائون کی نرمی کو فوراً ختم کرے گی۔ اس دوران ہماری بے احتیاطی سے کرونا کے پھیلائو کی صورت بھی بہت خطرناک ہو سکتی ہے۔ اسلئے لاک ڈائون کی سختی سے معاشی مسائل پہلے سے کہیں زیادہ گھمبیر ہو جائیں گے کیونکہ یہ ایک طویل لاک ڈائون ہوگا۔ دوسرا یہ کہ کرونا کے پھیلائو کی صورت میں ہمارے ملک کے صحت کے نظام پر جو دبائو آئے گا وہ معاشی خرابی سے کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس لئے لاک ڈائون کی نرمی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے سماجی فاصلہ، صحت و صفائی اور ماسک کے استعمال ضرور کریں۔دعا ہے کہ ہم اس مشکل سے سرخرو ہو کر نکلیںاور لاک ڈائون کی نرمی ایک نعمت ثابت ہو، نا کہ ہم اپنے ہم وطنوں کے لئے اسے زحمت بنا دیں۔