اچھے خاندانی پس منظر، عمدہ روایات اور شرافت و نجابت کا عملی پیکر ڈاکٹر نوید احمد صدر بار اور بڑے ہونہار اور محنتی قانون دان صابر سلطان پاشا سیکرٹری بار تھے۔ پاشا صاحب بعد ازاں ایڈیشنل سیشن جج بن گئے۔ اعجاز خان بلوچ جو پاکپتن بار کے متواتر آٹھ نو بار صدر بار رہ چکے تھے اور وکلاء میں بڑے ہی مقبول اور رکھ رکھاؤ والے تھے وہ اْن دنوں واحد ممبر پنجاب بار کونسل تھے۔ بار کے ان عہدے داران کی فراست و دانائی اور معاملہ فہمی کی بدولت بار اور بنچ کے تعلقات بڑے خوشگوار رہے۔ نہ کوئی جوڈیشل ورک میں مداخلت۔ نہ سفارشی کلچر۔ کیا خوبصورت وقت تھا۔ انہی دنوں غالباً جولائی 2013 ء میں پاکپتن کی انسپکشن جج محترمہ جسٹس عائشہ اے ملک صاحبہ جو قانون پر دسترس اور نظم و ضبط کی پابند ہونے کی شہرت رکھتی ہیں وہ انسپکشن پر تشریف لائیں۔ عدالتی ماحول، عدالتی ریکارڈ، سیشن کورٹس میں قد آور درخت ہر یالی، صفائی اور عام سائلین کے لیے مہیا کی گئی سہولتیں دیکھ کر کْھلے الفاظ میں ہماری تعریف کی۔ پھر بار کے عہدے داراں اور سینئر وکلاء سے میٹنگ کے دوران میرے بارے میں بار کی رائے کے بعد بڑی فراخ دلی سے اْنہوں نے Note Inspectionمیں اس کا ذکر کیا۔ جب اس بات کا تذکرہ ہوا کہ پاکپتن میں بار اور بنچ کے تعلقات اتنے مثالی کیوں ہیں کہ اکثر جگہوں پر لڑائی جھگڑا چلتا رہتا ہے۔ تو تقریباً سارے عہدے داران اور سینئر وکلاء نے یک زبان ہو کر کہا کہ اس میں سیشن جج کا بڑا اہم رول ہے۔ یہ صرف اللہ تعالٰی کی مدد اور فضل و کرم کا نتیجہ تھا۔ ورنہ من آنم کہ من دانم۔ محترمہ جج صاحبہ نے جس طرح عدالتوں کی عمیق اور گہرائی میں جا کر انسپکشن کی اور پھر سنٹرل جیل ساہیوال کی انسپکشن سخت گرمی اور حبس میں تمام وارڈز میں جا کر اور ریکارڈ کی چیکنگ جس طرح کی اور کئی چیزوں کی نشاندہی موقع پر کی۔ ہمارے لیے مستقبل میں راہنمائی کے کئی در کھلے۔ عارف والہ ہمارے آنے سے پہلے تھوڑا سا spot troubled سمجھا جاتا تھا۔ میں وہاں تقریباً تین مرتبہ گیا۔ اس قدر پرْ جوش استقبال کہ بیان سے باہر ہے۔ وہاں کے بڑے باکمال اور وضع دار وکلاء کی فلاح و بہبود کے لیے ہمہ تن سرگرم ابرار شیخ صدر بار تھے۔ عارف والہ میں بار اور بنچ کے ماحول کو بہتر بنانے میں مجھ سے زیادہ بڑے ہی زیرک اور معاملہ فہم ایڈیشنل سیشن جج میاں خلیل ناز کا رول تھا۔ جو اْنکے تبادلے کے بعد اْسی سر گرمی سے بڑے سْلجھے ہوئے، سیدھی اور صاف بات کرنے کے قائل عاقل حسن چوہان نے بخوبی نبھایا۔ محمّد عباس ASJ نے اپنی سروس کا آغاز عارف والہ سے ہی کیا۔ نمایاں سول ججز میں بڑے ہونہار اور نیک سیرت عمران قریشی تھے۔ جبکہ ہیڈ کوارٹر پر بڑے ذہین اور قابل رائے آفتاب، میاں شاہد جاوید اور ہونہار نوجوان طیب اسحاق تعینات تھے۔ پاکپتن میں اْن دنوں اولاً سیّد اقبال حیدر DCO اور سرفراز فلکی DPO تھے۔ دونوں ہی بڑے سْلجھے ہوئے، پروفیشنل اور رکھ رکھاؤ والے تھے۔ بعد ازاں بڑے باوقار اور معاملہ فہم رانا ارشد DCO اور کچھ عرصہ کے لیے نوجوان دبنگ ہمایوں سندھو DPO اور پھر اعلٰی خاندانی روایات کے امین، درد دل رکھنے والے شاہ نواز سندھیلہ DPO پاکپتن تعینات رہے۔ ان سبھی کے ساتھ ہمارے تعلقات بڑے خوش گوار اور برادرانہ رہے۔ 2013ء کے عام انتخابات بطور DRO یہیں کرائے۔ پاکپتن سے اچانک وہاڑی تبادلہ پر بار نے احتجاج کا عندیہ دیا۔ مگر جب میں نے انہیں یہ بتایا تبادلہ میری consent لیکر ایک خصوصی مشن پر بھیجنے کے لیے کیا گیا ہے تو کچھ اطمیان ہوا۔ لہٰذا پاکپتن بار نے اگلے روز ایک نہایت پْر تکلّف الوداعی ظہرانہ کا اہتمام کیا۔ بڑی مزیدار تقاریر ہوئیں۔ جب یہ بات صدر بار ایسوسی ایشن نے بتائی کہ وہاڑی میں کوئی تنازعہ پیدا ہو گیا ہے اور ہمیں وہاں خصوصی طور پر حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے بھیجا جا رہا ہے تو بزرگ اور سینئر وکیل حاجی چراغ ڈوگر نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ اگر یہ تبادلہ وہاڑی میں جھگڑا کی وجہ سے ہوا ہے تو ہم یہاں جھگڑا پیدا کر لیتے ہیں تاکہ ہمارے سیشن جج کا تبادلہ رْک جائے۔ ہال تالیوں اور قہقہوں سے گونج اْٹھا۔ ہمارے خیال میں کسی مقام پر تعیناتی پر اس طرح کے پرْجوش اور پْرخلوص جذبات اثاثہ ہوتے ہیں۔ یہ خوش کْن یادیں، یہ وارفتگی، یہ پیار اور خلوص بھری الوداعی دعوتیں اور تقاریر، پھولوں کی پتیاں اور سوینئر اور تالیوں اور قہقہوں سے گونجتے ہال ہی تو انمٹ اور لازوال یادیں ہوتی ہیں۔ جو کسی بھی سرکاری ملازم خصوصاً سیشن جج کے لیے ایک خاص مقام افتخار کا تعیّن کرتی ہیں۔ اگرچہ یہ موضوع پوری ایک قسط کا متقاضی ہے۔ تاہم اپنے دوستوں کی راہنمائی کے لیے موجودہ دور کے سیشن ججز کا رول خصوصاً devolution کے بعد نہایت فعال اور متحرک ہے۔ تقریباً سبھی سٹیک ہولڈرز بشمول پولیس، انتظامیہ، باراور دیگر ادارے سیشن جج کو بڑے بھائی کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ اختیارات کی کوئی کشمکش نہ ہے۔ اب سیشن جج کو بھی بڑے بھائی کے طور پر act کرنا پڑتا ہے۔ سیشن جج صرف عدلیہ کا سیشن جج نہیں ہوتا بلکہ پورے ضلع کا سیشن جج ہوتا ہے۔ تمام اداروں اور افراد کو اْس پر اعتماد کرنا چاہیے۔ خوامخواہ کی بیان بازی، تیزی اور doing over نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اپنے جونیئر کولیگز کو بھی چھوٹے بھائی بہن سمجھ کر اْن سے پیار و محبت کا رشتہ نبھائیں، کام بھی لیں۔ ڈسپلن بھی قائم رکھیں۔ مگر شفقت اور محبت کا پہلو نمایاں رہے۔ دیگر ادارے بھی آپ پر اعتماد کریں۔ غرض ایک لیڈرانہ رول سیشن جج کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ بہرحال اب پاکپتن شریف سے وقت وداع ہے۔ بابا جی سے دوری کا قلق بھی ہے اور پاکپتن بار اور بنچ کے دوستوں کی لازوال محبت کی حسین یادیں بھی۔ سب کچھ لیے اگلی منزل وہاڑی ہے۔ وقت رخصت وہ چْپ رہے ناصر اور آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل