آپ نے کبھی سوچا کہ یہ سردیاں اور بہ طورِخاص دسمبر ایسا ملال آمیزرومان لئے ہوئے کیوں ہوتا ہے۔ خاص طور پر حْزن پرست تو اس مہینے بڑا ہی حظ اٹھایا کرتے ہیں۔ یہ رْت جہاں دلوں میں میٹھے جذبات پیدا کرتی ہے وہاں پرانی یادوں کو‘ گزرے لمحات کو اور بچھڑے لوگوں کے لمس کو وقت کی قبروں سے نکال کر سامنے لا کھڑا کرتی ہے۔ یادوں کا المیہ یہ ہے کہ جب یہ بن رہی ہوتی ہیں تو ان کی قدروقیمت کا احساس نہیں ہوتا لیکن جب ان کی فلم شوٹ ہو کر ڈبے میں بند ہوجاتی ہے اور کردار بکھرجاتے ہیں تو یہ لطیف جذبات کے حامل دلوں کو سلگانے لگتی ہیں۔دل اس فلم کو بار بار چلانے پر مائل ہوتا ہے۔فلم بھی چلتی ہے مگر اس میں لمس نہیں ہوتا‘ دوسرے کرداروں کے پیکر کی مہک نہیں ہوتی۔ بس یہی محرومی دلوں کو غم آثار کرتی ہے۔ منیر نیازی نے انسانوںکے مابین تعلق کی اس رمز کو پالیا تھا۔ محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی گزر جائیں گے جب یہ دن تو ان کی یاد میں ہوگی آج کی گفت گو میں میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جوپہلے مرحلے سے گزرچکے ہیں اور اب کہ جاڑے ہیں تو منڈیر چڑھی شام میں یادوں کے دیپ جلا کر بتی کی جگہ خود کو سلگایا کرتے ہیں۔ ہم نے بات یہاں سے شروع کی تھی کہ سرما اداس کیوں ہوتا ہے۔ یہ تو آپ کے علم میں ہے کہ جاڑے کی رْت کو انگریزی میں Winterکہتے ہیں۔ یہ و ہ عام لفظ ہے جس کے لئے لغت دیکھنے کی ہمیں اپنی زندگیوں میں کبھی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ لیکن اگر آپ ڈکشنری دیکھیں تو Winterکا مطلب اداس اور ملول کر دینے والاموسم بھی ہے۔ آکسفورڈ کی لغت میں اس کا ایک مطلب’’کوئی بھی اْجاڑ‘ ویران یا زندگی سے محروم دور‘‘ بھی لکھا ہے۔ گویا یہ ’’حادثہ‘‘ فقط ہمارے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہر جگہ ایک سا ہی حال ہے۔ ویسے میرا خیال ذرا سا مختلف ہے۔ کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جو زندگی بھر ساتھ دیتی ہیں۔ کچھ لمحات کو تازیست آپ زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔کچھ گیت اس نوع کے ہوتے ہیں کہ دل جنہیں ہمیشہ گْنگنانا چاہتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ انسان زندگی کے روزمرہ تقاضوں میں کچھ اس طور الجھا ہے کہ اسے یہ سب کرنے کاوقت ہی نہیں ملتا یا پھر اپنی یادوں کی فلم چلانے کو تخلیہ میسر نہیں ہوتا۔ سرما میں زندگی بھی ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ شام جلد اتر آیاکرتی ہے اور پھر اپنے ساتھ ایسا پالا لاتی ہے کہ مجالس بھی محدود تر ہوجاتی ہیں اور گھر جانے ہی کو عافیت کے ذیل میں شمار کیا جاتا ہے۔ پھر اپنے اپنے لحافوں کی قبر میں دْبک کا ایک طویل رات کے لئے ہم تنہا ہوتے ہیں۔ مکمل تخلئے میں انسان اپنے آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایسے میں لاشعور ماضی کی فائلیں جھاڑتا ہوا‘ شعور کی میز پر آن بیٹھتا ہے۔ گزرے وقت کے دفتر کھلتے ہیں اور ان لمحوں میں لے جاتے ہیںجہاں انسان جسمانی طور پر جانے سے معذور ہوتا ہے۔ یہی معذوری جنم دیتی ہے محرومی‘ پچھتاوے اور اداسی کو۔ ایک تو مجلسی زندگی سے محرومی اور اوپر سے یادوں کا تڑکہ اداسی اور ویرانی طبیعت میں گھر نہ کرے تو اور کیا ہو۔ دسمبر کا ذکر ہواور پھر اس مہینے کی رگوں میں بے چاپ ٹہلتی اْداسی کا تو عرش صدیقی یادکیوں نہ آئیں۔ غالباً دسمبر پر پہلی نظم انہوں نے ہی کہی تھی۔ اسے کہنا دسمبر آگیا ہے دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور‘ ماضی کی گْپھا میں ڈوب جائے گا مگر جو خون سوجائے گا جسموں میں‘ نہ جاگے گا اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی دیواروں میں لرزاں ہے اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں میں سورہے ہیں اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے اسے کہنا‘ اگر سورج نہ نکلے گا تو کیسے برف پگھلے گی اسے کہنا‘ کہ لوٹ آئے دسمبر شاعروں کو تخلیق پر اکساتا ہے کہ ویرانی و اْداسی اور حزن و افسردگی شاعری کا مادہ ہوا کرتے ہیں۔ یہ چوں کہ سال کا آخری مہینہ ہے تو برس گزرجانے کا ملال فطری طور پر مزاج میں اتر آتا ہے۔ یہ جو 2019ء کا کیلنڈر ہم نے دیوار پر آویزاں کیا تھا‘ ہوتے ہوتے اس کے سارے پرت اْتر گئے اور یہ جو اکیلا ورق رہ گیا ہے‘ اسے بھی آج کل میں اْترجانا ہے۔ پھر یہ برس زندگی میں کبھی نہ آئے گا۔سال کا آخری ماہ آیا ہے تو مہربان بہت سے نظمیں بھیج رہے ہیں کہ جو دسمبر کا مضمون لئے ہوئے ہیں۔ چناں چہ آج کا جو بے ربط سا کالم سرزد ہوا ہے تو اس کا محرک یہی اداس کردینے والے پیغامات تھے۔ یہ تسلیم کہ گزرتا وقت‘ اداسی اور ملال کی صورت میں اپنا رنگ چھوڑتا ہے لیکن وقت کا کام تو چلتے رہنا ہے‘ سوئی کی ٹک ٹک تونہیں رکے گی۔ چھوڑئیے خاطر کو آزردہ نہ کیجئے ‘ طبیعت کی آشفتگی اتار پھینکئے۔ جب ایک فیصلہ ہوچکا‘ اس کی طرف سے کہ جو وقت کا بھی خالق ہے تو ملال کیا کرنا۔ منشی سورج نرائن مہر نے کیا خوب صورت کہا ہے کہ یہ دنیا جائے گزشتن ہے‘ سائیں کی ہے یہ صدا بابا یاں جو ہے رْو بر رفتن ہے ‘ تو اس میں دل نہ لگا بابا گیانی نہ رہے دھیانی نہ رہے‘ تھے جو جو لاثانی نہ رہے تھے آخر کو فانی نہ رہے‘ فانی کو کہاں ہے بقا بابا آپ کے اور میرے سمیت زمین و آسماں کے بیچ کی ہر شے سفر میں ہے اور اس مسافت کی منزل کوئی نہیں۔ پڑا ہیں اور تبدیل ہوتی راہ گزر‘ غیر مادی سے مادی اور پھر مادے سے عاری۔ مادے کی دنیا میں ہماراجو سفرمکمل کر کے ہم اک نئے دیار کی دہلیز پار کرتے ہیں‘ اس کو ہم نے’’فنا‘‘ کانام دے رکھا ہے حالاں کہ جس نے اپنی روح پھونکی‘ نہ اس کو فنا ہے اور نہ ا س کی پھونکی ہوئی روح کو۔ بہ ہر حال آج کی زبان میں بات کریں تو یہ زمانہ(وقت) بھی فانی ہے اور اس میں سے گزرتی ہر ایک شے بھی۔ رہے گا تو میرے اللہ کا نام۔ سو یہاں آب و گِل کے ساتھ سفر میں جو وقت میسر ہے اسے رنج و محن کی نذر کیوں کریں ؟اس سے جس قدر ممکن ہو استفادہ کیجئے۔ ایسا استفادہ جو خودہمارے اوردوسروں کے لئے نافع ہو۔ یہی گزرتے وقت کا بہترین نعم البدل ہے۔