آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ حکومت ون یونٹ لانا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آنے والے وقت میں نئے الیکشن ہوں گے یا قومی حکومت، میں نہیں جانتا۔ یعنی بے خبری ظاہر کی لیکن بے خبری کے پردے میں خبر دے گئے، یہ کہ شاہی مطبخ میں کوئی نیا کھچڑا کھد بد کر رہا ہے۔ دوسرے اصحاب اس خبر سے اتفاق نہیں کرتے۔ ممکن ہے زرداری صاحب کی قوت شامہ ذکاوت حس کا شکار ہو گئی ہو، انہیں اس ڈش کی مہک آ رہی ہو جو کہیں بھی نہیں پک رہی۔ ہاں، ون یونٹ یعنی وحدانی نظام والی ان کی بات درست ہے۔ لیکن یہ ابھی خواہش کی شکل میں ہے۔ سکرپٹ طے ہے لیکن ابھی تعمیراتی کام شروع نہیں ہوا۔ قبل از الیکشن والی بات خان صاحب نے ضرور کی۔ لیکن بعد میں انہیں بتا دیا کہ، میاں، جو خوان نعمت 25 جولائی کی شام سجا تھا، اتنی جلدی دوبارہ نہیں سجایا جا سکتا اس لیے قبل از وقت الیکشن کی بات آئندہ نہ ہو۔ چنانچہ امید ہے، آئندہ نہیں ہوگی۔ قبل از وقت الیکشن والی بات انہوں نے صحافیوں کے انٹرویو میں کی تھی۔ اب تو پی ٹی آئی کے لوگ اسے گول کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ بس وہ تو یونہی انہوں نے ایک بات کردی یعنی منہ سے نکل گئی لیکن اسی روز اپنی کابینہ سے خطاب میں بھی انہوں نے یہی بات کی تھی۔ ایک ہی بات ایک ہی روز دو بار منہ سے نکل جانے والی بات انوکھی ہے لیکن صاحب خیال رہے، معاملہ کسی عام سیاستدان کا نہیں، ایسے نابغہ عصر کا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہوتا ہے وژن اور یہ ہوتا ہے لیڈر۔ ٭٭٭٭٭ قبل از وقت الیکشن کا آئیڈیا ذہن میں بہرحال موجود ہے اور اس کی وجہ بھی موجود ہے۔ ایک تو وہی خیال کہ دوتہائی اکثریت لے رہا تھا لیکن سازش ہو گئی اور دوسری وجہ بھی اسی دوتہائی اکثریت کے حصول کا خواب ہے کہ حاصل ہو اور وہ صدارتی نظام لا سکیں۔ 13 ویں ترمیم کی منسوخی کا معاملہ تو بہت چھوٹا ہے، اصل ہدف 73ء کا آئین ہے۔ وفاق بنانے والی ساری شقوں کے علاوہ ایک خاص شق بھی کہیں نہ کہیں ’’کھٹکن‘‘ بنی ہوئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ صدارتی نظام خان صاحب کی حتمی آرزو ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آج تک انہوں نے جو بیان دیا، بعد میں اس سے یوٹرن لے لیا۔ یوٹرن لینا لاکھ عظمت کی نشانی سہی لیکن کم از کم ایک بات ایسی ہے جس پر خان صاحب شروع سے اب تک قائم ہیں اور وہ اس بات کو حالیہ برسوں میں کم از کم چار سو بار دہرا چکے ہیں۔ وہ پوری استقامت کے ساتھ ایوب اور مشرف کے سنہرے دور یاد کرتے ہیں، ان کی خوبیاں بتاتے ہیں۔ ان سنہرے ادوار کا اوسط خلاصہ یہ ہے 1۔ صدارتی نظام، 2۔ اشرافیہ کے گھرانے (ایوب دور میں 20، مشرف دور میں کچھ ہزار) 3۔ ون یونٹ۔ (ایوب دور میں آئینی شکل میں تھا، مشرف دور میں پی سی او کی شکل میں، صوبے تھے لیکن اصل میں وحدانی نظام ہی تھا)۔ 4۔ 73 کا آئین نہیں تھا (ایوبی دور میں تھا ہی نہیں، مشرف دور میں معطل اور کالعدم تھا۔) یہی سنہرا دور واپس لانا وہ خواب ہے جو دو تہائی اکثریت کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اور رومیوں کا سارا سوز و ساز، رازیوں کا سرا پیچ و تاب اسی کے گرد گھومتا ہے۔ 20 گھرانوں کا ذکر خان صاحب نے صحافیوں سے بھی کیا لیکن ان سے سہو زمانی ہوگیا۔ وہ 20 گھرانوں کے خلاف (چوروں، ڈاکوئوں غیر محب وطن افراد کی چلائی گئی) مہم پر دکھی تھے اور فرمایا، یہ مہم 1970ء کے بعد چلائی گئی۔ درحقیقت ان گھرانوں کے خلاف یہ مہم 1970ء سے پانچ سال پہلے، 1965ء میں مادر ملت کی انتخابی مہم کے دوران شروع کی تھی۔ شاعر حبیب جالب ان دنوں جوان تھے، اور ان کی شاعری بھی پرشباب تھی جس نے ملک بھر کے چوروں، ڈاکوئوں بالخصوص نوجوانوں میں آگ لگا دی تھی۔ ان کی ایک نظم تھی۔ 20 روپے من آٹا اور اس پر بھی ہے سناٹا۔ اس کا ایک شعر تھا 20 گھرانے ہیں آباد، صدر ایوب زندہ باد۔ جو کچھ اب ہورہا ہے، وہ انہی 20 گھرانوں (جن کی گنتی اب ہزاروں میں ہے) کے حق ملکیت کے لیے ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو اشرافیہ کی بالادستی کی جو ذمہ داریاں سونپنے والوں نے سونپی ہیں، وہ اسی کو نبھا رہی ہے۔ یہ خیال کچھ نادان لوگوں کی نافہمی ہے کہ حکومت نااہل ہے، الٹے سیدھے ہاتھ پائوں مارکر معیشت کا بیڑہ غرق کر رہی ہے۔ نہیں حضور، جو کچھ ہورہا ہے، ڈالر کو تنومند کرنے سے سٹاک مارکیٹ کو ڈبونے تک، ترقیاتی منصوبے ختم کرنے سے لوگوں کو بے روزگار کرنے تک، گروتھ ریٹ آدھا کرنے سے شرح سود ڈبل کرنے تک، میڈیا پر پابندی سے نیب کی گرفتاریوں تک، اسی جنگ بالادستی کے مورچے ہیںاور جو ہورہا ہے، نقشے کے تحت ہورہا ہے۔ پروٹوکول میں اضافے کا مقصد نو آبادیاتی دور کا رعب بنانا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کا مقصد بھی گرفت مضبوط کرنا ہے۔ خان صاحب کو اپنی بادشاہت کے قیام کا یقین ہے۔ بقول ان کے سبھی ادارے ان کے ساتھ ہیں، میڈیا تاریخ میں سب سے بڑے دبائوسے گزر رہا ہے۔ زرداری نے فضل الرحمن کی صدارتی الیکشن میں یقینی کامیابی کو ناکام بنا کر راستہ اور بھی ہموار کردیا۔ یوں خان صاحب بہت طاقتور ہو گئے۔