ممکن ہے اکثر لوگوں کے لئے یہ خبرنئی ہو کہ پولیس اُن خواتین سے بھی رشوت لے کر ان کی FIR درج کرتی ہے جو کسی فرد یا افراد کے جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار ہو جاتی ہیں۔ لیکن مجھے یہ جان کر بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی ۔اِس لئے کہ مجھے تو پولیس کی تمام تر کارروائیوں اور وارداتوں کا عرصے سے اچھی طرح علم ہے۔ اگر میں پولیس کے بارے میں اپنے تجربات ، مشاہدات اور وُہ واقعات لکھنے بیٹھوں جو میرے علم میں ہیں تو میری عمر ختم ہو جائے گی لیکن یہ ہوش رُبا داستانیں ختم نہیں ہوں گی۔ آگے جانے سے پہلے ایک واقعہ سُن لیجئے جس نے پہلے پہل مجھے پولیس کی فطرت سے آگاہ کیا۔ جنوری 1967ء کی ایک سرد صبح تھی۔ میں شاہدرہ (لاہور) کے ریلوے اسٹیشن پر ایک بینچ پر بیٹھا لاہور سے آنے والی ٹرین کا منتظر تھا جو ساڑھے چھ کے قریب شاہدرہ اسٹیشن پر پہنچ جاتی تھی۔ میں نے معمول کے کپڑوں پر ایک اوور کوٹ پہن رکھا تھا ۔ میرے پاس ایک پرانا کمبل بھی تھا ۔ دس پندرہ روز پیشتر مجھے اسلامیہ کالج بد وّ ملہی کی انتظامیہ کی طرف سے لیکچر شپ کی آفر ہوئی تھی جسے غنیمت جان کر میں نے قبول کر لیا تھا۔ یہ میری زندگی کی پہلی ملازمت تھی۔ ان دنوں لاہور سے بدوّ ملہی تک کوئی سڑک نہ تھی۔ چنانچہ وہاں تک پہنچنے کے لئے ٹرین ہی واحد ذریعہ تھی۔ میں اِسی سلسلے میں شاہدرہ ریلوے اسٹیشن پر بیٹھا بدو ملہی جانے والی ٹرین کا منتظر تھا۔ ساڑھے چھ کے قریب معمول کے مطابق لاہور سے ٹرین آئی جو تقریباً خالی تھی۔ میں ایک خالی ڈبے میں داخل ہو کر ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں کسی ریفریجر یٹر میں داخل ہو گیا ہوں ۔ میں نے ٹھٹھرتے ہوے ہاتھوں سے سر سے مفلراتارا، اُس کا سرہانہ بنایا، اوور کوٹ کے بٹن اچھی طرح بند کئے اور بینچ پر لیٹ کر اُوپر کمبل لے لیا۔ نہ جانے کس وقت میری آنکھ لگ گئی۔ اور پھر اچانک میری آنکھ کھُل گئی اور مجھے یوں لگا کہ ڈبّے میں کئی افراد داخل ہورہے ہیں اور پھر ان کی ملی جلی آواز یں میرے کان میں پڑنے لگیں۔ میں نے سوچااللہ جانے یہ کون لوگ ہیں۔ جرائم پیشہ بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن میرے پاس تھا ہی کیا۔ آٹھ دس روپے اور ایک بوسیدہ کمبل ۔لینا چاہیں تو شوق سے لے جائیں۔ تاہم میں نے خیریت اِسی میں جانی کہ چپکے سے لیٹا رہوں اور یہ لوگ سمجھیں کہ کوئی مسافرسور ہا ہے۔ ان لوگوں کی باتوں سے پتہ چلا کہ یہ لوگ نارنگ اسٹیشن سے گاڑی میں بیٹھے تھے۔ ان کی تعداد میرے اندازے کے مطابق تین یا چار تھی۔ ان کے لہجے اور زبان سے پتہ چل رہا تھا کہ یہ پولیس والے ہیں۔ وہ کسی عورت کو مخاطب کر کے اُس پر فقرے کس رہے تھے ۔وہ عورت کسی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی۔ دو ایک بار میرے کان میں اُس کی سسکیوں کی آواز ضرور آئی۔میں بدستور " دنیا و مافیہا سے بے خبر " سوتا رہا۔ جلد ہی ساری بات میر ی سمجھ میں آگئی۔ ان کی باتوں سے پتہ چلا کہ ان کے ساتھ جو عورت تھی وُہ اپنی عمر سے کہیں بڑے خاوند کو چھوڑ کر اپنے کسی آشنا کے ساتھ فرار ہوگئی تھی۔ اُس کے خاوند نے، جسے پولیس والے چوہدری، چوہدری کہہ رہے تھے، تھانے میں FIR درج کروائی اور ساتھ ہی اچھی خاصی رشوت بھی دی۔ رشوت کے پٹرول نے اپنا رنگ دکھایا اور پولیس اہل کار اِس خاتون کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے ۔ مخبری ہونے کے بعد انھوں نے ایک جگہ چھاپہ مارا۔ آشنا تو پولیس کے ہاتھ نہ آیا۔ البتّہ یہ خاتون قابو آگئی۔ اب یہ لوگ اُسے لے کے کر نارووال پولیس اسٹیشن لے جارہے تھے۔ پولیس اہل کار اِس خاتون پر جو فقرے کس رہے تھے، انھیں ضبطِ تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ گالیوں سے مرصعّ یہ جُملے اگر سعادت حسن منٹو بھی سُن لیتا تو انھیں دُہرا نہ سکتا۔ یوں لگ رہا تھا کہ ان پولیس اہل کاروں کے گھر وں میں مائیں، بہنیں ، بیٹیاں اور بیویاں نہیں ہیں۔ بے حیائی ، بے حسی ، بے شرمی ، جہالت اور ذلالت کے آئینہ دار یہ فقرے آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں تو رگوں میں خون منجمد ہونے لگتا ہے۔ میں بدستور سویا ہوا تھا۔ اچانک میرے کان میں ایک پولیس اہل کار کا یہ جملہ پڑا : "لو بھئی ، مہتہ سو جہ آگیا۔ مہتہ سوجہ سے بدو ملہی تھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔ چنانچہ میں نے جاگنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے اپنے بدن سے کمبل الگ کیا اور انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھا۔ مجھے دیکھتے ہی سب پولیس والے خاموش ہوگئے۔ میں نے ایک نظر اُس بدقسمت خاتون پر ڈالی۔ وُہ ایک طرف سمٹی سمٹائی، مظلومیت کی مکمل تصویر بنی بیٹھی تھی۔ میں اُس کا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا لیکن اُس نے اپنا سر باز ئوں اور چادر میں چھپا رکھا تھا۔ میں نے سوچا بہتر ہے اِس کا چہرہ نہ ہی دیکھوں ورنہ یہ چہرہ مجھے قیامت تک HAUNT کرتا رہے گا۔ اتنے میں بدو ملبی کا اسٹیشن آگیا اور میں کمبل سنبھال کر نیچے اتر گیا۔ تب سے میرا پختہ عقیدہ اور نظریہ ہے کہ کسی خاتون کو کسی مرد پولیس اہل کار کی ہوا بھی نہیں لگنی چاہیے۔ہر تھانے میں ایک لاء گریجو ایٹ مرد پولیس افسر بھی ہوجیسے اسسٹنٹ پراسیکیوٹنگ آفیسر ہوتے ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق ہر 100تھانوں میں کم ازکم 25 وومن پولیس اسٹیشن ہونے چاہییں۔ حکومت سے کہیں گے تو وُہ فنڈز کی کمی کا معمول کا بہانہ پیش کر دے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فنڈز کی کمی کیوں ہے۔ جب ووٹ کی سیڑھی کے ذریعے بد کردار لوگ اقتدار کی مسند پر بیٹھتے رہیںگے، جب حکمرانی چند کرپٹ خاندانوں کی راکھیل بن جائے گی، جب عوام کو ذلت اور غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا جائے گا، جب اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہوگی تو پھرعوام کے لئے فنڈز کہاں سے آئیں گے، تھانے کیسے سدھریں گے، عدالتیںکیسے با وقار اور انصاف پر مبنی فیصلے دے سکیں گی، سرکاری ہسپتالوں میں قیامت کے مناظر کیسے غائب ہوں گے، تعلیم سے محروم کروڑوں بچے سکول کی شکل کیسے دیکھ سکیں گے، لاکھوں تعلیم یافتہ لوگوں کو بھی ملازمت کیسے مل سکے گی، بے روز گاری اور غربت کیسے دور ہو سکے گی۔ ان سب کاموں کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے۔ فنڈز کے علاوہ ایمان دار اور اہل حکمرانوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں نہ ایسے حکمران ہیں اور نہ اتنے فنڈز ہیں کہ عوام کی فلاح پر خرچ کیے جا سکیں گے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ موجودہ نظام میں عوام کی حالت یہی رہے گی۔ صدارتی نظام کے لیے عوام کے ریفرنڈم کا راستہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔ اب عوام کو اپنی رائے کے اظہار کے لیے بھی ان غیر جمہوری پارٹیوں سے اجازت لینا پڑے گی۔ اب یہ لوگ ا تنے احمق تو ہیں نہیںکہ عوام کو ریفرنڈم کی سہولت دے کر اپنے پائوں پر کلہاڑا مار لیں۔ بس اب ایک ہی راستہ نظر آتا ہے۔ عوام کو اپنی آزادی اور ایک اچھی زندگی کے لیے خود اُٹھنا پڑے گا۔ کرپٹ حکمرانوں سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرنے کے لیے سڑکوں پر قربانی دینی پڑے گی ورنہ عمران خان جیسے ایک ہزار نیک نیت اور ایماندار لوگ بھی اِس دولت مافیا کے ہاتھوں شکست کھا جائیں گے۔