شیخ شرف الدین ، جو اسلامی دنیا میں "شیخ سعدی" کے نام سے معروف ہیں،1184 ء میں شیراز میں پیدا ہوئے ، آپ،اپنے عہد کی نہایت معروف اور ایسی مایہ نازعلمی شخصیت تھے، جن کے کہے ہوئے اشعار، اقوال اور افکار... اسلامی علمی روایت کا اعزاز اور دینی حکمت و دانش کا افتخارٹھہرے۔اخلاقی تربیت اور تعمیر سیرت کے حوالے سے" گلستان و بوستان" کو بلندمقام میسر آیا۔تیرھویں صدی عیسوی کے آخر میں ، ملتان کے حاکم شہزادہ محمد خاں شہید نے اپنے والد غیاث الدین بلبن کی طرف سے ، شیخ سعدی کو دو مرتبہ ہند وستان آنے کی دعوت دی ، انہوں نے پیرانہ سالی کا عذر کیا، لیکن انہوں نے گلستان ، اور بوستان ، اپنے ہاتھ سے بادشاہ کو لکھ کر تحفے میں بھیجیں۔ بہر حال.. .شیخ سعدی کی بعض رباعیات نے، بالخصوص برصغیر کے نعتیہ، مدحیہ اور منقبتیہ ادب کو بہت زیادہ متاثر کیا ،بالخصوص:۔ بلغَ العَلٰی بکمالہ ...... اوریہ رباعی، جو شہرت ِعام اور بقائے دوام کی حامل اور ہر محفل میں بطور دُعاپڑھی جاتی ہے ۔ الٰہی بحق بنی فاطمہ کہ بَر قول ایماں کنُی خاتمہ اگر دعوتَم رَد کنُی وَر قبول مَن و دَست و دامانِ آلِ رسول یعنی :"یا الٰہی! حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ کی اولاد کے صدقے ، مجھے ایمان پرخاتمے کی توفیق دے ، تو میری دُعا کو چاہے رد کردے یا قبول ،میں تو آلِ رسول کا دامن ہاتھ میں لیے ،تیرے حضور میں دُعا کرتا ہوں۔" بر صغیر میں مجتہدانہ شان اور فقیہانہ بصیرت کے حامل حضرت امام ربانی ، مجدد الف ثانی ، شیخ احمد سرہندی فرماتے ہیں کہ،اس فقیر کے والد مولانا شیخ عبد الا حدؒ ، جو ظاہری اور باطنی علوم کے ماہر اور متبحر عالم تھے ، اکثر اوقات اُن پر محبت ِ اہل بیت کا غلبہ رہتا اور وہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے اور فرمایا کرتے تھے کہ، اس محبت کا انسان کے" خاتمہ بالخیر" اور دنیا سے سلامتٔی ایمان کیساتھ رخصت ہونے میں بڑ ا دخل ہے ، اس لیے ان ذواتِ مقد سہ کیساتھ اپنے ربط اور تعلق کو مضبوط اور مستحکم رکھنا چاہیے ۔ حضرت مجدّدالف ثانی ، دفتر دوم، مکتوب36 میں، مزید فرماتے ہیں :" یہ فقیر، آپؒ یعنی اپنے والد گرامی کے وصال کے وقت اُن کی خدمت میں حاضر تھا، جب حضرت وا لدِ ماجد کا وقتِ آخر آیا اور (نزع کے وقت)اس عالم ِدنیا کا شعور کم رہ گیا ،تو فقیر نے محبتِ اہل بیت کی بات یاد دلائی اور اس کے متعلق دریافت کیا ،آپ ؒنے اُس بے خودی کے عالم میں فرمایا کہ "میں اہل بیت عظام ؓ کی محبت میں مستغرق ہوں۔"(حضرت والد ماجد) کی اس حالت پر خدا تعالیٰ کا شکر بجا لایا گیا۔ اہل بیت سے محبت، اہل سنت وجماعت کے نزدیک سرما یۂ نجات ہے ۔حضرت امام ِ ربّانی ،مجدّد الف ثانی ؒ اسی مکتوب میں مزید فرماتے ہیں :"وہ شخص بہت ہی جاہل ہے، جو اہل سنت وجماعت کو اہل بیت کا مُحبّ نہیں سمجھتااور اہل بیت سے محبت کرنا شیعوں کو خاصہ جانتا ہے ،حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے محبت کرنا شیعیت نہیں ہے... آپؒ مزید لکھتے ہیں ، کہ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں ـ:"اگرآلِ محمدﷺسے محبت رکھنا شیعیت ہے ،تو جن وانس گواہ رہیں کہ میں رافضی ہوں ۔"اسی طرح حضرت امام ربّانی نے ،اپنے مکتوبات کے دفترِ سوئم مکتوب 17میں فرمایا :"حضرات خلفائے اربعہ کی افضلیت ، ان کی خلافت کی ترتیب کے موافق ہے ،کیونکہ تمام اہل حق کا اجماع ہے کہ پیغمبروں کے بعد تمام انسانوں میں سے افضل حضرت صدیق اکبرؓ ہیں ،ان کے بعد حضر ت عمر فاروقؓ ۔" حضرت امام ربّانی مجدّد الف ثانی اپنے زیر حوالہ مکتوب نمبر36کو حضرت سعدی شیرازی ؒ ہی کی مذکورہ، معروف رباعی پر ختم کرتے ہیں ۔ خطّہ پنجاب میں نقشبندی، مجدّدی مشرف کی امین ، سب سے نمایاں خانقاہ، حضرت میاں شیر محمد شرقپوریؒ کی ہے ، جن کے فیوضات ِ عالیہ اور بر کاتِ عظمی نے با لخصوص وسطی پنجاب کو حضرت امام ربانیؒ، مجدّد الف ثانی ؒ کے فیضان سے متصف کیا،اورآپؒ کے خلفا کی عظیم جماعت ، اس مشرب کی امین بنی، جو روحانی کے ساتھ علمی، دینی اور فکر ی سطح پر بھی ، اُس وقت کی ضرورت تھی ۔ آپؒ کے کبار خلفا میں سے صاحبزادہ محمد عمر بیر بلوی، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اوائل دو ر میں اسلامیہ کالج پشاور میں استاد تھے ،آپؒ کی سوانح اور ملفوظات"انقلاب الحقیقت فی التصوف والطریقت" میں لکھتے ہیں، کہ سجادہ نشیں خواہ کسی بھی درجے کا ہو ، صاحبِ ولایت کی روحِ پاک کو اس سے خاص نسبت اور تعلق ہوتا ہے ، تاہم اس کے ادراک کے لیے ذوقِ سلیم اور آئینہ ٔ دل کی پاکیزگی لازم ہے۔جیسے ہی کوئی صاحبزادہ ،خانقاہ کی ایڈ منسٹریشن اور مینجمنٹ کا کنٹرول سنبھالتا اورمسند ِسجادگی پر بر اجمان ہوتا ہے، تو صاحبِ ولائیت کے تصّرفات اس پر ظاہر ہونا شروع ہوجاتے اور خانقاہ کے متعلقین و متوسلین کے قلب و نگاہ میں "صاحبِ سجادہ" کے لیے عقیدت بھرے جذبات اُبھر آتے ہیں، ایسے تصرفات صاحبِ ولائیت اور صاحب ِخانقاہ و اہل مزار کی طرف سے اپنے جانشین کے لیے خاص ہوتے ہیں۔ حضرت میاں صاحبؒ کی مسند اور آپؒ کے انوار و برکات کے امین حضرت صاحبزادہ میاں محمد ابوبکر، سجادہ نشین صاحب نے موجودہ بحران،جس میں"سیّدہ طیبہ ،طاہرہ، بتولِ زہرأ سلام اللہ علیہا کی طرف خطا کی نسبت "کا ارتکاب ہوا، تو تڑپ اُٹھے ، اور اسکا فوری اور بروقت ادراک کیا ، اور اپنی تمام متعلقہ خانقاہوں کے سجادگان کو شرقپور شریف طلب فرما کر ،" نفسِ مسئلہ" پر ایسی بسیط اور بلیغ گفتگو فرمائی کہ سجادگان تو ظاہر ہے دست بستہ تھے ہی ۔ اکابر مفتیان بھی دم بخود رہ گئے، واضح رہے کہ حضرت میاں صاحبؒ کے اکابر خلفا میں سے اہم ترین کا تعلق" نقوی و بخاری سادات "سے ہے۔ اس مسئلہ پر ،شرقپور شریف کی طرف سے ایک جاندار مؤقف ، جو بلاشبہ حضرت امامِ ربّانی، مجدّد الف ثانیؒ کی تعلیمات کا غماز تھا ، کا اجراء سادات خانقاہوں کے لیے باعثِ اطمینان اور عامتہُ الناس کے لیے مشربِ مجدّدی کے فیضان کا ذریعہ بنا۔ بلا شبہ حضرت مجدّد الف ثانی ؒ نے اہل بیت کے ظاہری فضائل وکمالات کے ساتھ اپنے مکاشفات کی بنیاد پر ، اہل بیتِ اطہار کے گراں قدر روحانی مقامات و کمالات پر جس طرح روشنی ڈالی ،وہ یقینا حضرت مجدّد صاحب ؒ کے تفردات و تحقیقات ہی کا خاصہ ہے ،جس میں دیگر اہلِ علم ان کے مقام وبیان کو نہ پہنچ سکے۔دراصل صحابہ کرامؓ سے محبت اور اہل بیت اطہار سے عقیدت وارادت ---ہی اہل سنّت کا اعزاز تھا ،ہے اور انشاء اللہ رہے گا ۔ اور اگر یہ توازن کسی وجہ سے بگڑ گیا اور ایک کی محبت دوسرے سے دوری کا باعث بن گئی یا ایک طبقے کا دفاع کرتے ہوئے ، دوسرے کا اعزاز برقرار نہ رکھا جا سکا ،تو پھر عقیدئہ اور عقیدت کا حق ادا نہ ہوسکے گا۔ اُمّت کے اکابرین نے انہی نفوس قدسیہ اور ذواتِ مقدسہ کی محبتوں کے سائے میں گذشتہ کئی صدیوں پہ محیط یہ طویل علمی اور دینی سفر طے کیا اور کسی ہستی پہ کبھی کوئی حرف نہ آنے دیا ۔ اگر کوئی خود میں اتنی استعداد نہ پاتا ہو ، تو اس کو ایسے نازک موضوعات سے خود کو دور رکھنا چاہیے ۔