گزشتہ ہفتے موسم سرما کی تعطیلات کے اختتام پر اسلام آباد سے لاہور کا سفر اہل خانہ کیساتھ کافی خوشگوار تھا۔ موٹر وے پر رش بہت زیادہ تھا اور ہر کوئی دھند پھیلنے سے پہلے گھر پہنچنے کی جلدی میں تھا۔ سیانے کہتے ہیں کہ " سفر وسیلہ ظفر" لیکن پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں سفر کرنا میرے لیے اکثر پریشان کن رہا ہے کیونکہ دوران سفر اپنے وطن کے بہت سے قیمتی وسائل کو ضائع ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ حکام بالا جب تک ان وسائل کو بچانے کی طرف متوجہ ہونگے تب تک بہت کچھ ہاتھ سے نکل چکا ہو گا۔ یہاں میرا اشارہ زمین کی جانب ہے وہ زرعی زمین جو ہمیں دو وقت کی روٹی فراہم کرتی ہے۔ وہ روٹی اور رزق جس کے حصول کیلیے ہم تمام زندگی محنت کرتے ہیں اور دیس پردیس کے دھکے کھاتے ہیں لیکن لگتا ہے اس ملک میں یہ مسئلہ حد سے تجاوز کر چکا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے ملک کے کئی شہروں میں آٹے کی شدید قلت ایک نئے بحران کو جنم دے چکی ہے۔ غریب کی زندگی کیا پہلے کم اجیرن تھی کہ اب شدید ٹھٹھرتی سردی میں صبح سویرے آٹے کی ایک بوری کیلیے لائن میں لگنا پڑتا ہے۔ اگر ابھی بھی اس صورتحال پہ حکام بالا نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو آنے والے چند سالوں میں گندم اناج کیساتھ ساتھ پانی کا بحران بھی دیکھنا پڑے گا۔ پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا جال دن بدن اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ اب اس میں سے نکلنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ باقی شہروں کی تعداد ایک طرف صرف راولپنڈی اسلام آباد میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہاؤسنگ سوسائٹیز ہیں، جن میں سے درجنوں غیر قانونی ہیں یا متعلقہ محکمے سے رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز کا بڑھتا ہوا یہ جال ہماری قیمتی زرعی زمین کو اپنے شکنجے میں جکڑ چکا ہے اور اسکا نتیجہ مختلف اجناس کی قلت میں سامنے آ رہا ہے۔ اسلام آباد سے شمالی علاقہ جات کی جانب سفر کریں یا جنوبی پنجاب کی جانب راستے میں جابجا ایک ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے بڑے بڑے سائن بورڈز پہ مختلف ہاؤسنگ سکیموں کے اشتہارات اور پس منظر میں بڑی بڑی ہیوی مشینری سے پہاڑوں کو ملیامیٹ کرتے انسان۔ یوں لگتا ہے کہ آنے والے چند سالوں میں ہمیں پہاڑ اور پہاڑی علاقے دیکھنے کو نہیں ملیں گے اور ہرے بھرے پہاڑوں اور سر سبز درختوں اور کھیت کھلیانوں کی جگہ صرف گھر ہی گھر ، پلازوں کی بھرمار اور رہائشی کالونیوں کا طومار نظر آئے گا۔ اسلام آباد سے مختلف علاقوں کا سفر کرتے ہوئے مجھے یہ بات بہت پریشان کرتی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ انسان کے لالچ کی کوئی انتہا نہیں،کوئی حد نہیں۔ زیادہ سے زیادہ کی چاہ میں انسان نے درخت، دریا، ہرے بھرے کھیت کھلیان، زرعی زمینیں حتی کہ اب پہاڑوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ ان تمام قیمتی اور قدرتی وسائل کو ظالمانہ طریقے سے استعمال کرکے اور ان پہ دھڑا دھڑ گھر اور پلازے بنا کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اپنا گھر اور کاروبار تو بنا کر دے رہے ہیں لیکن ان سے انکی خوراک چھین رہے ہیں۔ پاکستان میں زیر زمین پانی خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے اور ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک میں پانی کے ذخائر کو محفوظ رکھنے اور ڈیمز کی کیا صورتحال ہے۔ وطن عزیز سے جنگلات اور گرین ایریا کاٹ کر ہم نے اسے بنجر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ایسے میں زرعی زمینوں پہ گھر بنا کر ہم مزید بھیانک غلطی کر رہے ہیں۔ گویا خوراک اور پانی جو کسی بھی انسان کی بنیادی ضرورت ہیں انکا بحران ہمارے سامنے سر اٹھائے کھڑا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور چند سال پہلے تک ہم گندم، اناج، چاول، کپاس، گنا، آم اور دیگر اجناس دوسرے ممالک کو برآمد کرتے تھے لیکن اب صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ زرعی زمین کی قلت سے ہماری برآمدات اب درآمدات میں بدل چکی ہیں۔ جہاں ملکی معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے وہاں زرعی اجناس کی پیداوار میں کمی خطرے کا الارم بجا رہی ہے کہ ٹھوس اقدامات اٹھانے کا وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ لہذا حکومت وقت اور متعلقہ حکام سے گزارش ہے کہ جلد سے جلد ان مسائل کو حل کرے۔ پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹی کے کاروبار کو لگام ڈالی جائے اور اس ضمن میں زرعی زمینوں کی خرید و فروخت پہ فی الفور پابندی لگائی جائے۔ تمام زرعی زمین کو حکومت اپنے قبضے میں لے اور ان پر کسی قسم کے تعمیراتی کام کی اجازت ہر گز نہ دی جائے۔ زرعی زمینوں کے مالکان کو زمین پہ کاشت کرنے اور مختلف اجناس اگانے کیلئے سہولیات فراہم کی جائے۔ کسان بھائیوں اور کاشت کار طبقے کو بجلی اور پانی کے نرخوں میں خاص رعایت دی جائے تاکہ آنے والے وقتوں میں زرعی اجناس میں اضافہ کیا جاسکے۔ پاکستان کے ادراہ شماریات کے مطابق ملک میں کپاس کی پیداوار پچھلے دس سالوں میں 13.6 ملین سے کم ہو کر صرف 7 ملین رہ گئی ہے۔ اسی طرح گندم اور چاول کی پیداوار بھی تقریباً نصف رہ گئی ہیں۔ ہم مسائل اور وسائل کی خطرناک جنگ میں گھر چکے ہیں اور مسائل سے نمٹنے کے چکر میں اپنے قدرتی وسائل کو بے دریغ اور بے تکے انداز میں ضائع کر رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بہت سمجھداری اور دور اندیشی کیساتھ ان مسائل سے نکلنا ہوگا اور اپنے قدرتی وسائل کو نا صرف بچانا ہے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بھی کرنا ہے۔ اگرچہ حکومت اور حکام بالا سے اسکی توقع رکھنا ایک بچگانہ سی خواہش لگتی ہے لیکن ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے مجھ پر اور ہر شعور رکھنے والے پر فرض ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے اور اپنی آواز بلند کرے۔ بے جا گھروں کی بجائے بلڈنگ اور تین سے چار منزلہ رہائشی عمارتوں کو ترجیح دی جائے تاکہ کم سے کم زمین میں زیادہ سے زیادہ گھر بن سکیں۔ بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی والے ملک میں زمین اور غذا کے بحران کو نہایت سمجھداری، مہارت اور جدید بنیادوں پہ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ رہائشی کالونیوں پہ پابندی، پانی کے ذخائر کو محفوظ رکھنے اور ڈیمز بنانے کے ساتھ زرعی زمین کی حفاظت اور اس میں وسعت پیدا کرنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔