حضرت! تمھاری اس علم نگری سے وابستہ و پیوستہ تیرہ مردوں کے ساتھ تین مزید خواتین کا ذکر کیے بغیرمجھ سے رہا نہیں جا رہا۔ اس طرح ان کو ’تیرہ میں نہ تین میں‘ والا شکوہ بھی نہیں رہے گا۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ خواتین کے تذکرے کے بغیر دنیا بھر کا ادب اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔ مَیں اکثر سوچتا ہوں کہ ان حوا زادیوں کے لیے سیدھا سیدھا ’خواتین‘ کا لفظ زیادہ موزوں تھا، یہ خواتین کی بدعت جانے کس دور میں رائج ہوئی؟ ان تینوں میں ایک تو منٹو میاں کے افسانے کے نام والے شہر سے تمھاری طرح لاہور فتح کرنے نکلی ہوئی مٹیار ڈاکٹر نبیلہ رحمان ہے، جس نے کسی خانگی وقوعے کی بنا پر عرصۂ دراز سے کسی اور نام کا چولا پہن رکھا ہے۔ مجھے جب بھی ملتی ہے ’عمر چور‘ کہہ کے مخاطب کرتی ہے، حالانکہ اس کی اپنی عمر چوری کرنے کی داستانیں اورینٹل کے در و دیوار پہ رقم ہیں۔ دوسری محترمہ، ظرافت نگر کے باسی میاں وحید کا گھر اور حال ہی میں شاعرِ مشرق کے آستانے کو آباد کرنے والی ڈاکٹر بصیرہ عنبرین ہے۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے ان لڑکیوں کو دیکھ کے مجھے ہونہار بِروا اور خوش گوار پُروا والا محاورہ بے طرح یاد آتا تھا۔اس کی تصدیق ان کی محکمانہ کامرانیوں نے بھی کر دی ہے۔ سنا ہے ان دونوں بیبیوں کے ملازمانہ سکیل کی شدت ہر قسم کے ریکٹر سکیل سے بھی زیادہ ہے۔ میاں ! ہمارے ہاں تو لڑکیاں بالیاں بائیس سال کا ہندسہ عبور کرتے جھجکتی ہیں، یہ ایڑیاں اٹھا اٹھا کے بائیسویں گریڈ سے دست پنجہ ملاتی دیکھی گئی ہیں۔ لالہ بسمل بتاتا ہے کہ ابھی تک ان محترماؤں کی آنکھوں میں ہل من مزید والی چمک ماند نہیں پڑی۔ میرا جی چاہ رہا ہے کہ کسی دن اپنے پَلّے سے اپنی ان دونوں عزیزاؤں کو ’’اور کہاں تک جانا ہے؟‘‘ اور ’’ آگے سمندر ہے‘‘ نامی کتب کا ہدیہ پیش کرنے آپ کے ادارے میں پیادہ پا آؤں۔ تیسرے نمبر پر وہ ہماری اور اس ادارے کی ’خواہرِ خُرد‘‘ ڈاکٹر انیلا سلیم ہے، جس کی عقل اور شکل بہت حد تک چھوٹی بہنوں سے ملتی جلتی ہے۔ اتنی میٹھی اور ملائم گفتگو کرتی ہے کہ میرا دل چاہتا ہے اس کا نام بدل کے ’ونیلا سلیم‘ رکھ دوں۔ اس کی قامت، جسامت دیکھ کر مَیں ہر بار مغالطے میں مبتلا ہو جاتا ہوں کہ وہ یہاں پڑھنے آئی ہے یا پڑھانے؟ ایم فل، پی ایچ۔ ڈی کے جن بزرگ طلبہ سے اس کا آئے روز واسطہ پڑتا ہے، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ اُن کو تایا جی کہنے سے خود کو کیسے باز رکھ پاتی ہوگی۔ اس کی سادگی دیکھ کے لگتا ہے کہ اس ادارے کے بہت سے عزیزان وعزیزات نے اپنی اپنی معصومیت اور بھولپن کے سِکے کسی باز پُرس کے خوف سے اپنی جیب سے نکال کر اِس گڑیا کے پرس میں وسیع المدت بنیاد پر رکھوا دیے ہیں۔ میاں! تم یہ بات تو تم اچھی طرح جانتے ہو کہ تمھارے اس کلیہ شرقیہ میں اُردو اور فارسی سے میری قلبی و جسمانی وابستگی رہی ہے، یہ دونوں لسانی دوشیزائیں تو میری ایسی محبوباؤں کا درجہ رکھتی ہیں کہ جن کی آپس میں بنتی بھی ہے۔ پنجابی ویسے ہی میری ماں بولی ہونے کی بنا پر عزیز از جان ہے، اس لیے اس سے بھی ایک خاص طرح کا اُنس ہے۔ مجھے یہ مادری زبان بول کے، لکھ کے، سن کے ایک خاص طرح کا سکون ملتا ہے۔ گزشتہ دنوں بدیسی ماحول سے شرابور ایک محفل میں مَیں نے پنجابی میں بات کی تو ایک صاحب نے مجھے ٹکا کے گھورا، مَیں نے عرض کیا: ماں بولی اے تاں بولی اے باقی دُھپ اے چھاں بولی اے اس دھڑکن دا ناں بولی اے لیکن تمھارے یہاں کے اکثر اساتذہ کا یہ طرزِ عمل دیکھ کے کلیجہ منھ کو آتا ہے کہ یہ برقی رابطے کے جملہ وسیلوں میں اپنے پیغامات سرکارِ انگلسیہ کی ارمان آمیز زبان یا رومن کے ہیجان انگیز رسم الخط میں لکھ کے زیادہ سکون محسوس کرتے ہیں۔ اب تم ہی کچھ وضاحت کرو کہ ان کے اس فعل کو خانۂ غفلت کے شمار میں رکھا جائے یا احساسِ کمتری کی قطار میں؟ پھر تمھارے اسی ادارے میں سنا ہے میرے عزیز بلکہ ہر دل عزیز شعبۂ اُردو کے میر منشی جو نام کے بھی زاہد ہیں، کے زُہدِ کردار اور جُہدِ بسیار کے بہت چرچے ہیں ۔ کوئی نصف صد کے قریب کتابوں کا ایک پشتارہ اُن حضرت کے مطوّل تعارفیے میں دیکھنے میںآتا ہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ وہ حضرت بھی تمھاری طرح شاہینوں کے اس دیس کے باسی ہیں، سنگترہ اور سنگتراش جہاں کے بہت مشہور ہیں۔ یاد آ گیا کہ ایک زمانے میں ڈاکٹر وزیر آغا اور جناب احمد ندیم قاسمی کی مسلسل ادبی آویزشیں دیکھ دیکھ کے مجھ ستم ظریف نے کہیں لکھ ڈالا کہ ان دونوں حضرات کا تعلق اُس علاقے سے ہے، کینو اور کینہ جہاں کا بہت مشہور ہے، دونوں عظیم شخصیتوں نے تو بالکل برا نہیں مانا، البتہ ان کے متولیان مجھ سے تمام عمر رنجیدہ رہے۔ میاں تم لوگوں کی بات الگ ہے، تمھارے لچھن دیکھ کے تو لگتا ہے کہ تم تو ہم مغلچوں سے بھی دو ڈھائی ہاتھ آگے ہو۔ ہماری بڑی سے بڑی جست یہ ہوتی تھی کہ جس پہ مرتے تھے،اُسی کو مار رکھتے تھے۔تم لوگوں کی بابت شنید ہے کہ جس پہ نہیں بھی مرتے اس کو بھی مار رکھتے ہو۔بعض احباب کی بابت شنید ہے کہ وہ مجھ ناچیز اور تم باچیز سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں،یعنی جو کسی پہ بھی نہیں مرتے ان کو بھی مار رکھتے ہیں۔یار نظامی! مَیں تو یہ سوچ سوچ کے تنگ آ گیا ہوں کہ تمھارے اس سیارے کے لوگ دوسری شادی اور آخری محبت پہ کس دن ایمان لائیں گے؟میرا بس چلے تو مَیں مخلوط تعلیم والے ہر ادارے کے استاد کے لیے ہر پانچ سال بعد ایک نئی نکور شادی کا معرکہ لازم قرار دے ڈالوں۔ کبھی کبھی پھرتا پھراتا، گھومتا گھامتا، تماشائے اہل قلم و کرم دیکھنے ادھر آ نکلتا ہوں اور بدلے ہوئے حالات و حضرات کو دیکھ دیکھ سوچتا ہوں کہ اب میرا اس ادارے میں کوئی حصہ تو نہیں لیکن قصہ ضرور کسی کونے کھدرے میں دَھرا ہوگا۔ لوگ مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ یہ جو تم روز پرانے ٹی وی جیسا ایک ہی طرح کا بلیک اینڈ وائٹ منھ اُٹھا کے اس کوچے میں چلے آتے ہو، تمھارا مسئلہ کیا ہے؟ میَں انھیں کیسے بتاؤں کہ مَیں اس احمریں عمارت کی سرخ اینٹوں میں اپنے حصے کی لالی تلاش کرنے آتا ہوں اور یہ کہ مجھے آج بھی بانو بازار کی پتلی گلی کی سانولی سلونی حسینائیں اور انارکلی کے کچھے امپوریم، پیکجز کی گِٹ مِٹ کرتی ماڈرن پُتلیوں اور شارٹس سے زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ (جاری)