ہیرالڈ لاس ویل نے ’گیریژن سٹیٹ‘ کے جو خدوخال سال 1940 ء میں بیان کئے تھے، کیا آج کا پاکستان اس تعریف پر پورا اترتاہے ؟کیا طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ پاکستان کودر پیش سکیورٹی چیلنجز کا بلا وجہ ہوّا کھڑاکرتے ہوئے تمام ریاستی وسائل پر قابض ہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ ہی ہے کہ جو ملک میں جمہوری حکومتوں کے استحکام کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہے؟کیاحالیہ کچھ برسوں کے اندر مغربی ایماء پربرپا کی گئی منظم مہم کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت محض انہی چند عوامل کی بناء پر کی جاتی رہی ہے؟کیا اس سال’ رجیم چینج ‘ کے پسِ پشت اسٹیبلشمنٹ پراسی مہم کے نتیجے میں آنے والا دبائو بھی کسی حد تک کارفرما رہا؟ہو سکتا ہے کہ پیشِ نظر سوالات کے جوابات کسی حد تک اثبات تو کسی حد تک نفی میں ہوں۔سوال مگر یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اب جب کہ عمران خان ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت میں اسی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو اس سال کے اوائل میں ہو نے والے ’آپریشن‘ کے لئے ذمہ دار قرار دینے کے علاوہ حال ہی میں اپنے کچھ ساتھیوں سے بد سلوکی، میڈیا پر قدغنوں ، صحافیوں پر تشدد اورخود اپنی کردار کُشی کے لئے کھلم کھلا موردِ الزام ٹھہرارہے ہیں توچند ہی ماہ پہلے تک جمہوریت اور سویلین بالا دستی کے لئے سر گرم عناصر عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے اُلٹاانہی کی مخالفت پر کیوں کمر بستہ ہیں؟کیا عمران خان اب بھی قابلِ بھروسہ نہیں؟کیا ملٹری اسٹیبلشمنٹ اورعمران خان کی ’سپورٹ بیس‘ یعنی پاکستانی مڈل کلاس کو اب بھی فطری اتحادی سمجھا جارہا ہے؟ اِس سال مارچ کے مہینے تک پاکستانی معیشت ، کرونا کے عذاب سے نبرد آزما ہونے کے بعدچھ فیصد سے زائد شرح نمو پر کھڑی تھی۔ ڈالردو برس کے مسلسل دبائو اورمہنگائی بالائی سطح پر ہونے کے باوجود بے قابو نہیں تھے ۔زرِ مبادلہ کے ذخائر ملکی تاریخ کے بلند ترین مقام پر کھڑے تھے۔ ڈیفالٹ کا دور دور کوئی امکان نہیں تھا۔زرعی اور صنعتی سیکٹرز میں نمود صاف دکھائی دے رہی تھی۔ کیا آج معاشی صورتِ حال اپریل 2022ء سے بہتر ہے؟ وہ کہ جن کومعاملات کا گہرا ادراک ہے،چیخ چیخ کربتا رہے ہیں کہ معیشت کی چولیں چٹخ رہی ہیں۔ مہنگائی سال 1970ء کے بعدملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر کھڑی ہے۔ قومی تجارتی کمپنیوں کو بین الاقوامی منڈیوں میں ادھارلین دین میں مشکلات کا سامنا ہے۔ کھلی مارکیٹ میں ایک ڈالر کے بدلے میں 240 روپے مل رہے ہیں۔نتیجے میں ترسیلات زر میںکمی درپیش ہے۔تجارتی خسارہ منہ پھاڑے کھڑا ہے۔بین الاقوامی ایجنسیاں پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو حال ہی میں گرا چکی ہیں۔چنانچہ عالمی منڈی میں پاکستانی بانڈز پر شرح سود اور انشورنس میں ہوش ربا اضافہ ہوچکاہے۔ ما رچ 2022ء میں پاکستان کے نادہندگی کے امکانات 5%تھے ، جو آج سراسیمگی طاری کر دینے والی75%سطح پرآچکے ہیں۔تنزل اگرچہ ہماری گزشتہ کم ازکم تین عشروں کی کارستانیوں کا مجموعی نتیجہ ہے ،پانچ سے پچھہتر فیصد تک کا سفر مگر محض نو ماہ میں طے ہوا ہے۔حال ہی میں صدر بائیڈن نے جب پاکستان کے جوہری اثاثوں کے بارے میں Cohesionکے فقدان کی بات کی تھی توایک گمان یہی ہے کہ ان کے پیشِ نظر جوہری ریاست کی معاشی صورت حال ہی ہو گی۔ا ب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پوری دنیا ہماری معاشی صورتحال سے آگاہ ہے تو ہماری اپنی حکومت اس قدر مطمئن کیوں نظر آرہی ہے؟بڑے میاں صاحب اپنے پورے خاندان کو لندن منتقل کر چکنے کے بعد اب پاکستان سے متعلق کلیدی فیصلے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔تاہم اخباری اطلاعات کے مطابق لندن میں جو معاملات زیرِ بحث آئے اُن میں صفِ اول پرمعیشت یا سیاسی بحران نہیں، نومبر کی تعیناتی رہی۔ اعلیٰ عہدوں پر ’اپنے بندے‘ لانچ کرنے کی کوشش اگرچہ پہلی بار نہیں ہورہی، تاہم عہدوں کی ایسی بے توقیری اس سے قبل نہیں دیکھی گئی۔دکھائی تو یہی دیتا ہے کہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی زیرِ نگرانی پاکستان آرمی ایکٹ میںترمیم کے لئے جس قانون سازی کے لئے ساز باز کی جارہی ہے، لندن میں ہمارے صاحبِ فراش وزیرِاعظم کے ’فیملی لنچ‘ کا ہی شاخسانہ ہے۔ شجاع نواز کی کتاب Crossed Swords میں جنرل آصف نواز سے متعلق باب میں درج واقعات اُس دور میں ہمارے ہاںحکمرانوں کی سوچ کو آشکار کرتے ہیں۔ ادارے میں تعیناتیوں پر اثر انداز ہونے کی ایک ناکام کوشش بھاری امداد کے بدلے ایک امریکی بل کی صورت میں بھی کی گئی تھی۔ کیا برسوں بعد ذہنیت بدل گئی ہے؟قرائن یہی بتاتے ہیں کہ آج بھی اپنے ہی ’بندے‘ کی تلاش ہے۔کیا میاں صاحب ملک کو در پیش معاشی بحران اور ڈیفالٹ کے مضمرات سے آگاہ نہیں؟ ہم تک پہنچنے والی اطلاعات کے مطابق مگر انتخابات کی تاریخ کے اعلان کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹ میاں صاحب ہی ہیں۔ صرف انہی کو نہیں بظاہرتمام الیٹ گروہوں کوسرِ دست عام انتخابات میں دلچسپی نہیں۔سسٹم گرتا ہے تو گرے۔ ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو ہو جائے۔سیاسی جماعتوں،میڈیا، انصاف کے سیکٹر اور نام نہاد سول سوسائٹی میںانہی الیٹ گروہوں کے کارندے مگراپنی دُھن میں مگن ہیں۔ حیران کن طور پر آج کل اسٹیبلشمنٹ کا ان سے بڑا ہمدرد کہیں دستیاب نہیں۔ پاکستان کو درپیش معاشی بحران پر بات کرنے کی بجائے توشہ خانہ جیسے بے سرو پا معاملات کولے کر جس طرح دھول اڑائی جا رہی ہے،اسے دیکھ کر کم از کم ہمیں توحکومتی ایوانوں میں معاشی صورِت حال پہلی ترجیح کے طور پر نظر نہیں آرہی۔سیاسی حواریوں سے تو ہمیں گلہ نہیں کہ کسی نظرئیے یا اصولی موقف کی بجائے جن کی سیاست خاندانی وفاداریوں پر استوار ہے۔کیا خود ستائی کا ماراہمارا دانشور طبقہ بھی گروہی مفادات، ذاتی تعصبات اورنظریاتی دوغلے پن کی سڑانڈ اوربالآخر فکری تعفن کا شکار ہے؟ یا پھر معاملہ کچھ اور ہے؟کیا بالآخر ’گیریژن سٹیٹ ‘ ہی حتمی ہدف ہے؟وہ جو ’گیریژن سٹیٹ‘ کو ’فلاحی ریاست‘ میں بدلنے میں واقعی مخلص ہیں،سوال مگر انہی سے ہے کہ کیا ’Elite Capture‘ کے آہنی شکنجوں کے اندر فلاحی ریاست کا قیام ممکن ہے بھی یا کہ نہیں؟قوموں کی تاریخ تو ہمیں کچھ اور ہی بتاتی ہے۔توپھر کیا بقاء کی قدیم جبلت ہی ہے کہ جس نے تمام طاقتوروں کو ایک ہی لڑی میں پرو کر رکھ دیا ہے؟بے یقینی کی اس صورتِ حال کے اندر تمام نگاہیں منتظر اور ملتجی ہیں۔می لارڈ کہیںجھیل کے کنارے بیٹھے مچھلی کا شکار کھیل رہے تھے۔وہیںاُس مقام پر ایک شخص نے جھیل میں چھلانگ لگائی اور غوطے کھانے لگا۔ می لارڈ کی آنکھوں کے سامنے ڈبکیاں کھاتے ہوئے غرقاب ہوگیا۔ پولیس آئی، لوگ آئے۔می لارڈ سے پوچھا گیا کہ مرنے والا آپ کے سامنے ڈوب رہا تھا، آپ نے مداخلت کیوں نہ کی؟ می لارڈ بولے، ـ ’دی میٹر واز ناٹ براٹ بی فور می‘۔محض ایک فرد نہیں،پوری قوم آپ کی نگاہوں کے سامنے ڈوب رہی ہے۔معاملہ آپ کے سامنے ہے۔ بار باراُٹھایاجارہا ہے۔