سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورۂ پاکستان اور بھارت کے بعد پاک بھارت کشیدگی اور ’’بیانوں‘‘ کی گولہ باری اور دھمکیاں اب آخری حدود کو چھو رہی ہیں۔وزارت خارجہ کے ایک بابو سے اسلام آباد سے استفسار کیا کہ بیشتر حکمرانوں کی طرح ہمارے دل و جان سے قریب ملک سعودی عرب کا حکمراں پاکستان کے بعد بھارت کا دورہ کیوں کرتا ہے۔ ۔ ۔ ان کا جواب وہی روایتی تھا کہ ایک تو برسوں سے یہ روایت پڑی ہے۔ دوسرے ہمارا کوئی دوسرے ملک پر چاہے وہ سعودی عرب اور چین جیسا قریبی دوست ہی کیوں نہ ہو یا کوئی اورسرکاری ادارہ اس سے اول تو ہمارے ہاں سوال و جواب کی روایت ہی نہیں۔ٹیلی فون اٹھا کر اگر خوش دلی سے سلام کا جواب ہی دے دیںتو اطمینان ہوجاتا ہے ۔ مگر یہ سوال تو بہر حال اپنی جگہ رہتا ہے ہی کہ سعودی عرب جیسا ہماراقریبی دوست ملک جس کااستقبال کرتے ہوئے ہماری سانسیں اب تک پھولی ہوئی ہیں۔جب ہمارے روایتی دشمن پڑوس ملک بھارت جاتا ہے تو ایسے قابل رشک اقتصادی معاہدے کرتا ہے کہ اُس مو ر کی مثال سامنے آجاتی ہے ۔ ۔ ۔ جو اپنے خوبصورت پنکھ اڑاتے ،پیروں کو دیکھتا ہے تو اُس کی آنکھوں میں نمی آجاتی ہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کیلئے جو فقید المثال استقبا ل کیا ۔ ۔ ۔ چلیں اُسے اپنی روایتی مہمان نوازی کے ’’کھاتے‘‘ میں ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے روایتی دشمن ملک کو اگلے 24گھنٹے بعد کس طرح نوازا گیا۔ساری اسکرینوں سے پاکستانی قوم یہ منظر دیکھ رہی تھی کہ ہمارے وزیر اعظم محترم عمران خان کے پہلو میں بیٹھے ولی عہد محمد بن سلمان کے بائیں، دائیں ایک قطار میں ہمارے اور اُن کے وزراء ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور جو باری باری آواز لگنے پر ایک لمبی میز پر آمنے سامنے بیٹھ کر فائلوں پر دستخط ثبت کر کے ہاتھ ملا کر الٹے قدموں جاتے ۔سات منٹ سے بھی کم وقفے میں21ارب ڈالر کے مختلف شعبہ ہائے جات میں سات MoUsپر دستخط ہوئے۔یہ ایم او یوبھی بڑا دلچسپ مذاق ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے ملکوں کے سربراہان کے دوروں میں ان ممالک کے سرکاری بابو ڈھیروں ڈھار ہر شعبے کی ،سینکڑوں فائلیں تیار رکھتے ہیں۔جن میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ڈالر کے قریب المدت اور طویل المدت معاہدوں سے اگلے چند برسوں میں دودھ ،شہد کی نہریں بہہ رہی ہونگی۔دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری وزارت خارجہ سمیت دیگر منسٹریوں میں ایسی سینکڑوں نہیں ہزاروں فائلیں ہوں گی جنہیں کبھی کا دیمک چاٹ چکی ہوگی۔ ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ان میں سے 30سے40فیصد فائلوں پر کئے جانے والے معاہدے قابل عمل ہوتے ہیں۔ جبکہ ایک مستند ذرائع کے مطابق ہمارے ہاں ان کی شرح 10فیصد سے بھی کم ہے۔سو ہمارے قابل احترام مہمان سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خان صاحب کی حکومت سے 21ارب ڈالر کے معاہدے کرنے کے بعد جو اپنے دورے کے اگلے پڑاؤ میں پڑوسی ملک بھارت سے MoUسائن کئے ، وہ 100ارب ڈالر کے تھے۔ آسان جواب میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھئی بھارت ہم سے چھ ،سات گنا بڑا ہے۔ ۔ ۔ اس اعتبار سے ان کی اتنی ہی مالیت ہونی چاہئے۔مگر کیا ’’دوستی اور تعلقات‘‘ کا یہی پیمانہ ہوتا ہے؟ پھر بات ایم او یوز تک ہی نہیں ،اس وقت سعودی عرب میں بھارت سے تعلق رکھنے والے 36لاکھ 40ہزار محنت کش ملازمت کر رہے ہیں۔ جس کے مقابلے میں ،پاکستان کے 26لاکھ27ہزار کو ملازمتیں دی گئی ہیں۔یعنی سعودی عرب میں مقیم بھارتی جو20ارب ڈالر کی ترسیلات ہندوستان بھیجتے ہیں۔ ۔ ۔اُس کے مقابلے میں پاکستانیوں کی ترسیلات محض 8ارب ڈالر ہیں۔ بہرحال اس بات کا کریڈٹ ہمارے وزیر اعظم عمران خان کو ضرور جائے گا کہ انہوں نے 3ہزار پاکستانی قیدیوںکی بات کی جو برسہا برس سے سعودی قید میں ہیں۔ اور یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ سعودی ولی عہد نے فوری طور پر اُن کی رہائی کی یقین دہانی کرائی بلکہ قیدیوں کی پہلی کھیپ رہا ہوکر پاکستان پہنچ بھی گئی ہے۔ اور پھر حج مبارک کے سلسلے میں جو پاکستان اور بھارت،دونوں کو، دو،دو لاکھ کا کوٹہ دیا گیا ،اس کا سبب بہر حال یہ تو ہے نا کہ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی تعداد بیس کروڑ کے لگ بھگ تک پہنچ گئی ہے۔ دوستوں کو احسانات نہیں گنوائے جاتے۔مگر یہ حقیقت تو اپنی جگہ ہے کہ جب بھی سعودی فرمانرواؤں اوراُن کی مملکت پر کڑا وقت آیا تو یہ پاکستان ہی تھا جس نے اپنے عسکری،مالی وسائل میں کمی کے باوجود سب سے پہلے لبیک کہا… 1979میں جب مٹھی بھر باغیوں نے خانہ ٔ کعبہ پر قبضہ کر کے ہنگامی صورت حال پیدا کردی تھی تو وہ پاکستان کے فوج کے جوان ہی تھے جنہوں نے خانہ ٔ کعبہ پر قبضہ کرنے والے مرتدوں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ عراق ،کویت جنگ ہو ۔ ۔ ۔ یاحال میں جاری یمن جنگ۔ ۔ ۔ یہ حکومت ِ پاکستان ہی ہے ۔جسکی سیکورٹی فورسز موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔۔ ۔ اور پھر ہمارے سابقہ آرمی سربراہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں اسلامی فوج کا قیام خود اس بات کا ثبوت ہے کہ مستقبل کے محفوظ سعودی عرب کے استحکام میں پاکستان کتنا بڑا کردار ادا کررہا ہے۔ یہ درست کہ ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے میں بڑا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور اس حوالے سے 12ارب ڈالر کی جو فوری امداد دی گئی ، اُس میں یقینا پاکستانی ڈوبتی معیشت کو ایک بڑا سہارا دیا ہے۔ مگر اس وقت پاکستان Geo-politics کے حوالے سے بھی جن خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ اُس کی ضرورتیں اِ س سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور یہی قوموں کی زندگی میں وہ وقت ہوتا ہے جب انہیں دوستوںسے توقع سے بڑھ کر امداد ملنی چاہئے ۔اس حوالے سے برادر ملک چین کی مثال دی جاسکتی ہے ۔جس نے 63ارب ڈالر کا سی پیک کا معاہدہ کر کے پاکستان کی دم توڑتی ہوئی معیشت میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔اور کیوں نہ امید رکھی جائے کہ ولی عہد کے حالیہ دورے کے نتیجے میں اگلے مرحلے میں اُن کی امداد میںمزید اضافہ ہی ہوگا۔