واصف علی واصف صاحب کہا کرتے تھے کہ درویش اور دانشور میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے۔ درویش کو مل کر عام آدمی کو بھی عزت کا احساس ہوتا ہے اور دانش ور؟ دانش ور آپ کے اصل قد کو گھٹا کر آپ کو بونا بنا دیتا ہے۔ انسان نے وجود میں آتے ہی تجسس سے کام لینا شروع کردیا کہ کیا ہے؟ کون ہے؟ کیوں ہے؟ تب سے اب تک زندگی کے بنیادی سوالات وہی ہیں۔یونان کے ارسطو سے آج تک ۔ سوال نہیں بدلے۔ افراد بھی نہیں بدلے۔ مسائل بھی وہی ہیں۔ زندگی کہاں بسر ہو؟ کیسے بسر ہو؟ مفکر سوچتا رہتا ہے۔ مدبر فکر کے قالب میں ڈھالتا رہتا ہے۔ ہزار برس پہلے بھی یہی مسئلہ تھا۔۔۔ آج بھی وہی بنیادی مسائل درپیش ہیں۔ سیاست، سماج اور فکر کا رخ کدھر ہے؟ روٹی ، کپڑا اور مکان۔ کیا انسان کی ضرورت صرف اتنی ہی ہے یا اس کے بعد بھی کوئی ضرورت درپیش رہتی ہے؟ ایک عالم نے استفسار کیا کہ کیا ان احتیاجات کی ضرورت انسان کے علاوہ حیوان کو بھی درپیش نہیں ہوتی ہے؟ تو پھر حضرت انسان۔۔۔ بیچارے جانور سے منفرد اور مختلف کیسے ہوگئے؟ جواب آیا۔۔ انسان عقل کے بوجھ کی وجہ سے اشرف المخلوقات ہے۔ تو پھر صرف روٹی ، کپڑا اور مکان پر ہی تو اختتام نہیں ہو جاتا۔ میں کون ہوں؟ میرا رب کون ہے؟ یہ کائنات کس نے بنائی؟ میرا اور اس کا کیا تعلق ہے؟ اس تعلق کی تفصیل اور تشریح کون کرے گا؟ اس کا علم کون دے گا؟ عقل کتنی طاقتور ہے اور کتنی ضعیف؟ عقل سے جو علم حاصل ہوتا ہے ، وہ حواس خمسہ کی حد عبور کر سکتا ہے یا علم کا ذریعہ کچھ اور۔۔ کوئی اور بھی ہے ؟ علم کہاں سے آتا ہے؟ اللہ کے بندوں کی دنیا کے پیمانے، اصول ،قانون اور ضابطے اس ظاہری مادی دنیا کے تقاضوں سے مختلف اور منفرد ہوتے ہیں۔ مادی دنیا وجہ اور نتیجے کی دنیا ہوتی ہے۔ اللہ کے بندوں کا جہاں دُعا اور کن فیکون پر مشتمل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں جیسے دنیاوی حکومتوں کے لیے ایڈمنسٹریشن میں ڈیوٹیاں لگتی ہیں، ایسے ہی ان کی دنیا میں بھی پوسٹنگز ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق ایسے ہوتا ہے کہ فلاں علاقے کا انچارج۔۔ فلاں موچی ہے ، فلاں جگہ کے معاملات وہ ترکھان دیکھ رہا ہے۔ واصف ؒ صاحب کے مطابق درویشوں کے مزاروں پر ٹیلکس مشینیں لگی ہوتی ہیں۔آج کی زبان میں میسج اور سگنلزآرہے ہوتے ہیں۔جابھی رہے ہوتے ہیں۔ دنیاوی علوم اور دینی علوم والے بھی بعض اس PARADIGM کو ماننے سے یکسری انکاری ہیں۔ سیکولر اور ملحد کہے گا جو شے حواس خمسہ کی رینج میں نہیں آسکتی اسے تسلیم کرنا حماقت ہے۔ ایک عالم سے جب علم کی حقیقت پر بات کی گئی تو کہنے لگے علم اور معلومات میں بہت فرق ہے۔ خارج میں جو کچھ بھی ہے جب تک جزو ذات نہ بن جائے علم نہیں بن سکتا۔ پھر سوال کرنے لگے جو باطن میں علم ہے اس کو خارج میں بھیجنے کے ذرائع کیا ہیں؟ حدیث کے مطابق نبی پاک دُعا کیا کرتے تھے ’’کہ اللہ مجھے اشیاء کی حقیقت کا علم دے‘‘۔ بنیادی طور پر یہی وہ علم ہے جو عشق الٰہی سے جنم لیتا ہے۔ حواس خمسہ کی حدود جب راہ کی رکاوٹ نہیں بنتیں۔ دانش ور فلسفہ پڑھتا ہے ۔ ذہن انسانی کی پرواز سے خرد کی گتھیاں سلجھاتا ہے۔ سائنس نے مادی اور خارجی دنیا میں دریافت اور ایجادات کا ایک انقلاب برپا کردیا۔ سانس نے انسان کے لیے مادی سہولیات اور آسائشیں مہیا کردیں۔ یہ سب ذہن انسانی کی پرواز اور تجسس ہے۔ یہ خارج کا سفر ہے ۔ اسی طرح ایک باطن کا سفر ہے۔ حضرت علیؓ کو دنیائے ولایت میں ایک بلند ترین مقام حاصل ہے۔ اُن کا ارشاد ہے ’’جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے رب کو پہچان لیا‘‘۔ باطن کا سفر ہی ولایت کا سفر ہے۔ بادشاہوں، حکمرانوں اور پاور پلے کے خوگروں کی دنیا اور ہے ۔ ولیوں اور صوفیوں کا جہان بالکل اور ۔ بادشاہوں کے درباروں سے دور یہ اپنی خانقاہوں میں موجود رہتے۔ مخلوق خدا چلی آتی ، لنگر بٹتاچلا جاتا۔ دنیاوی علم کے نباض انہیں نہیں مانتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کے مزاروں کا انتظام صدیوں سے کیسے چل رہا ہے؟ لنگر کی تقسیم، مخلوق کی وارفتگی ، عقیدت اور محبت کا راز کیا ہے؟ لاہور میں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کے مزار پر تقریباً ایک ہزار سال سے فیوض و برکات کی برسات ہے۔ کون چلا رہا ہے؟ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے مزار پر صدیوں سے منوں وزنی دیگوں میں لنگر بن بھی رہا ہے اور بٹ بھی رہا ہے۔ سلطان الہند نظام الدین اولیاء ؒ ، بابا فرید الدین شکر گنجؒ ،بُو علی قلندرؒ اور صابر پیا کے مزار پر لوگوں کی منتیں کس طرح پوری ہوتی ہیں؟ انہیں صرف توہم پرست اور جاہل کہہ کر یکسر رد کردینے والوں کے لیے قابل فکر اور قابل غور ہے یہ سارا سلسلہ جو کسی بھی دنیاوی حکومت اور بادشاہ کی سرپرستی کے بغیر چل رہا ہے۔ ایک علم وہ ہے جو حواس خمسہ اور عقل سے خارج سے باطن میں آتا ہے۔ علم ایک اور بھی ہے ۔ وہ جو حواس خمسہ سے ماوراء ہوتا ہے۔ کچھ درویش اسے علم نافع بھی کہتے ہیں۔ غور کریں، تدبر کریں، تفکر بھی کہ ہمارے آقاؐ کا علم اور اُن کی اتباع میں ولیوں اور صوفیوں کا علم کن سکولوں، مدرسوں اور یونیورسٹیوں سے آیا؟ علم حقیقی کا منبع ، حواس خمسہ ، پانچ انسانی حسوں کا محتاج نہیں ہوتا ۔ اسی لیے وقت کی سان پر درماندہ بھی نہیں ہوتا ۔ ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے۔ اللہ حی و قیوم ہے جو اللہ کے دوست ہوتے ہیں وہ سدا بہار کی بات ہوتے ہیں۔