چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے ہمراہ سندھ اسمبلی کے آڈیٹوریم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سٹیل ملز سے 10ہزار مزدوروں کو فارغ کرنا انسانیت کے خلاف ہے۔ ملازمین کی برطرفی کے خلاف ہر فورم پر جائیں گے۔ روس کی مالی اور تکنیکی مدد سے بننے والی سٹیل ملز کا شمار پاکستان کے بڑے منصوبوں میں ہوتا تھا ۔گو سٹیل مل اپنے قیام کے بعد سے ہی مسائل کا شکار رہی لیکن سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ اپنے پائوں پر کھڑی ہوئی، جب پرویز مشرف اقتدار سے رخصت ہوئے تو اس وقت پاکستان سٹیل ملز 9ارب روپے منافع کے ساتھ کھڑی تھی۔ پرویز مشرف کے اقتدار سے جانے کے بعد جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو اس نے آتے ہی اس میں اندھا دھند سیاسی بھرتیاں کرنا شروع کر دیں۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں جسے چیئرمین تعینات کیا تھا، اس کے خلاف کرپشن کے کیسز سامنے آئے۔ چہ جائیکہ ان الزامات کی تحقیقات کر کے قومی ادارے کے معاملات کو صاف و شفاف بنایا جاتا، پیپلز پارٹی کی حکومت نے آزاد تحقیقات میں رکاوٹیں کھڑی کر کے ایف آئی اے کے افسران کو بھی تبدیل کر دیا ،جس کے بعد کیسز پر تحقیقات رک گئیں۔ پیپلز پارٹی جب 2013ء میں اقتدار سے رخصت ہوئی تو اس وقت ملازمین کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ خسارے میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہو چکا تھا۔2013ء میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ملز کو سرے سے بند ہی کروا دیا اور ہر بجٹ میں سٹیل ملز کے ملازمین کی تنخواہوں کے لئے فنڈ مختص کرنا شروع کر دیے تھے۔ یوں ملازمین گزشتہ 5برس سے گھروں میں بیٹھ کر مراعات انجوائے کر رہے ہیں۔2008ء سے 2018ء ان دس برسوں میں نااہل نالائق اور مفاد پرست سیاسی قیادت نے اس قومی ادارے کی بحالی کے لئے پلان تک ترتیب نہیں دیا ،اب جب حکومت اس ادارے کے مستقبل کا فیصلہ کرنے لگی ہے تو بلاول بھٹو کے بعد سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی بھی بول اٹھے ہیں کہ ہم مزاحمت کریں گے حالانکہ انہیں اپنے سابق فیصلوں پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی فیصلے کی تحسین کرنی چاہیے تھی۔ دراصل سٹیل ملز میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ذاتی کارکنان ملازم ہیں جو اب بھی تنخواہ تو سٹیل ملز سے لیتے ہیں لیکن کام سیاسی جماعتوں کا کرتے ہیں ۔ حکومت ٹیکس گزاروں کے پیسے سے کب تک گھر بیٹھے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دیتی رہے گی۔ ریلوے ‘پی آئی اے اور سٹیل ملز‘ کمرشل ادارے ہیں ،انہیں کمرشل بنیادوں پر ہی چلایا جانا چاہیے تاکہ حکومتی کندھوں پر ان اداروں کا بوجھ نہ پڑے۔ سٹیل ملز گزشتہ پانچ برس سے بند ہے۔ اس وقت یہ 230ارب روپے کے قرض اور نقصان میں ہے۔ حکومت گزشتہ پانچ برس میں ملازمین کی تنخواہوں کے لئے 55ارب روپے ادا کر چکی ہے ۔ ماہانہ 70کروڑ روپے سٹیل ملز کے ملازمین کی تنخواہوں، ان کے نقصانات اور سود کی مد میں ادا کئے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں اس کی نجکاری کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن مسلم لیگ ن مکافات عمل کا شکار ہو گئی اور یوں یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اب اگر مسلم لیگ ن نجکاری کے بارے رکاوٹیں کھڑی کرے گی تو یہ سوائے سیاسی شعبدہ بازی کے کچھ نہیں ہو گا۔رہی بات پیپلز پارٹی کی تو اس کے ذاتی مفادات اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ سٹیل ملز میں اس نے اپنے کارکنوں کو بھرتی کر رکھا ہے جس کے باعث وہ شور شرابہ کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں پی آئی اے‘ ریلوے اور سٹیل ملز جیسے اداروں کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا تھا‘ اب اسے اپنی غفلت اور کوتاہی چھپانے کے لئے ایسے حربوں سے گریز کرنا چاہیے۔ خسارے میں چلنے والے ادارے اگر اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہو سکتے تو ان کی نجکاری کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ نجکاری سے نہ صرف لوگوں کو روزگار ملے گا بلکہ ملکی معیشت بھی مضبوط ہو گی۔حکومت 10ہزار ملازمین کو اگر نکال رہی ہے تو انہیں خالی ہاتھ گھر نہیں بھیج رہی بلکہ انہیں یکمشت مراعات دینے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے مطابق سٹیل ملز کے ملازمین کو اوسط 23لاکھ روپے فی کس ملیں گے جبکہ بعض ملازمین تو 70لاکھ روپے لے کر گھروں کو جائیں گے۔ جب اتنا پیسہ فی کس ملے گا تو ملازمین بے روزگار کیسے ہونگے؟اس لئے اپوزیشن جماعت سیاسی بغض اور عداوت کی بنیاد پر ڈھنڈورا پیٹنا چھوڑ دیں اور ملکی مفاد کے لئے حکومت کے اچھے کاموں میں اس کی مدد کریں۔سیاسی جماعتوں کی بے جا مداخلت نے پہلے بھی سٹیل ملز کے مسائل حل نہیں ہونے دیے۔ اب بھی اگر ماضی کی طرح سیاسی جماعتیںایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر الزام تراشی کے راستے پر چل نکلیں تو ایک بار پھر سٹیل ملز کا معاملہ جوں کا توں ہی رہے گا۔ پہلے جب سپریم کورٹ نے سٹیل ملز کی نجکاری روکنے کا حکم دیا تھا تب اس کے نقصانات 28ارب روپے تھے اب 230ارب روپے کے قرضوں کی دلدل میں دھنس چکی ہے۔ خدانخواستہ اگر اپوزیشن پارٹیوں نے اب بھی نجکاری کے راستے میں مزاحمت کی، ملازمین کو اشتعال دے کر سڑکوں پر لے آئے۔ جس کا سلسلہ پیپلز پارٹی نے ابھی سے شروع کر دیا تو ایک بار پھر معاملہ لٹک جائے گا۔ اس لئے اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر قربان کردیں اور ایسی سیاست سے گریز کریںجس سے مسائل سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جائیں۔