اکتوبر 2015ء میں سینیٹ اجلاس سے خلاف معمو ل جوش خطابت کی انتہاء پر پہنچے خواجہ آصف نے کہا تھاآئی پی پیز والے ’Robber Barons‘ہیں۔وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف کا حقیقت پرمبنی یہ بیان میڈیا سمیت آئی پی پیز مالکان کیلئے بم شیل تھا۔وجہ صاف ظاہر تھی کہ آئی پی پیز کے ایک بڑے مالک کی وزیراعظم نوازشریف کیساتھ انتہاء درجے کی قربت تھی۔ ایسی قربت کہ کوئی بھی وزیر اس شخصیت کے کاروباری مفاد کے خلاف ایک لفظ بھی عوام کے سامنے کہنے کا سوچ بھی نہ سکے۔تاہم خواجہ آصف کے’خطاب‘نے آئی پی پیز کے خلاف ’سیکنڈل‘کی بنیاد رکھ دی۔ Robber Baronsکی اصطلاح 19ویں صدی میں امریکی صنعتکاروں اور تاجروں کی جانب سے عوام سے نچوڑے گئے غیر منصفانہ منافع کے نتیجے میں سامنے آئی تھی‘ جس کے بعد ان عناصر سے نمٹنے کیلئے سخت قوانین اورسزائیں متعارف ہوئیں۔خواجہ آصف نے 2013ء میں 480ارب روپے کی ادائی کے باوجود گردشی قرضے کے جن کو بوتل سے نکلتے دیکھ لیا تھا۔یوںسینیٹ میں آئی پی پیز کی جانب سے اربوں روپے غیرمنصفانہ طو ر ’ہتھیانے‘کا بھانڈا پھوڑ دیا مگر غضبناک سکینڈل کی تحقیقات شروع نہ کرواسکے۔مسلم لیگ ن کے دور میں سب سے زیادہ آئی پی پیز پلانٹس لگے مگر خواجہ آصف آج بھی اپنے مؤقف پرڈٹے ہیں ۔وزیراعظم عمران خان آئی پی پیز کے خلاف متحرک ہوچکے مگر زبان زدعام ہے کہ ’ہونا کجھ وی نئیں‘۔ کیا واقعی ’رپورٹس ’کمیٹیاںاور کمیشن‘ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ہیں ؟ چلیں پہلے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی سیکنڈل کا سرسری جائزہ لیں۔گزشتہ ماہ مارچ میں خاکسار نے ’تلاش‘ میں دوانکوائری رپورٹس جلد جاری ہونے کا ذکر اور کچھ ہوشربا تفصیلات بیان کی تھیں‘ کہا تھا پاورسیکٹر سکینڈل کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جاچکی جبکہ ایک اور بڑے سکینڈل کی رپورٹ آئندہ چند دنوں تک وزیراعظم کو پیش کردی جائے گی‘ جس میں قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے ایسے گٹھ جوڑ کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں مخصوص خاندان‘افسرشاہی‘میڈیااور ایسے ادارے سے وابستہ شخصیات کی نشاندہی کی گئی ہے جس کی تفصیل بیان سے باہرہے۔ پاورسیکٹرسکینڈل رپورٹ 6مارچ کو وزیراعظم کو جمع کروائی گئی تاہم میں نے یہ خبر’سورس‘کے اصرار اور وعدے کے تحت روزنامہ 92 اور 92 ٹی وی پر11اپریل کو بریک کی تو ہر طرف’ہاہاکار‘ مچ گئی۔ بہت سے دوستوں کی فون کالز آئیں۔ 4ہزار800ارب روپے کے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سکینڈل کی انکوائری رپورٹ کی ساتھ خبر بریک کرنے پر ستائش کیساتھ ایک ہی بات دہرائی گئی کہ ’بھائی آئی پی پیز والے بہت خطرناک اور طاقتور لوگ ہیں‘ہونا کچھ بھی نہیں مگر آپ اپنی زندگی کو کیوں خطرے میں ڈال رہے ہیں‘اس خبر کا فالو اپ مت کرنا ‘بس خاموش ہوجاؤ‘یہ رسپانس پریشان کن تھا مگر دعائیں حوصلہ پست نہیںہونے دیتیں۔لہٰذا رپورٹس میں موجود تما م کرداروں کو مرحلہ وار بے نقاب کیا۔ انکوائری رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ گزشتہ 13برس کے دوران سبسڈی اور گردشی قرضے کے باعث قومی خزانے کو 4 ہزار 802ارب روپے نقصان برداشت کرنا پڑا‘جس کی بنیادی وجہ پاورپلانٹس کا مہنگا ٹیرف اور فیول کھپت میں ہیراپھیری ہے ۔ اندازہ لگائیے کہ 1994ء کی پاور پالیسی کے مطابق 17میں سے16آئی پی پیز نے 50ارب80کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی اور 415ارب روپے سے زائد کا منافع حاصل کیا۔ آئی پی پیز کے پے بیک کا دورانیہ 2سے4سال کے درمیان تھا۔16آئی پی پیزنے سرمایہ کاری سے 18گنا زیادہ منافع حاصل کیا۔ساہیوال کول پاور پلانٹ اورقطری شراکت سے تعمیر پورٹ قاسم کول پاورپلانٹ 483ارب روپے اضافی وصول کرینگے۔پاورسیکٹر انکوائری رپورٹ میں وزیراعظم کے مشیر تجارت رزاق داؤد‘ معاون خصوصی ندیم بابر‘وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور جہانگیر ترین کے پاورپلانٹس بھی اربوں روپے اضافی منافع کمانے میں ملوث ہیں۔لیکن حیران کن طور پر ان وزراء کو تاحال کابینہ سے الگ نہیں کیا گیا۔ مفادات کے ٹکراؤکی تعریف عمران خان سے زیادہ شایدہی کوئی او رجانتاہو۔ لہٰذا مفادات کے ٹکڑاؤ کی تعریف کی روشنی میں وزیراعظم کو ان وزراء کو انکوائری کمیشن کی تحقیقات اورمذاکراتی کمیٹی کے مذاکرات مکمل ہونے تک ضرورالگ کرنا چاہئے۔ مخصوص لابی نے کمزور پالیسیاں بنوائیں‘ یوں آئی پی پیز مالکان کو دونوں ہاتھوں سے قومی خزانے او رعوام کی جیبیں خالی کرنے کا موقع ملا۔9رکنی انکوائری کمیٹی نے ملک کو مالی دلدل سے نکالنے کیلئے بہت سی سفارشات اور حل تجویز کردئیے ہیں جس میں آئندہ 5سال تک نیاپاورپلانٹ لگانے پر پابندی‘ زیر تعمیر پاور پلانٹس پر نظرثانی‘25سال پورے کرنیوالے پاورپلانٹس سے بجلی خریداری ترک اور کے الیکٹرک کے 1600 میگاواٹ کے نئے پاورپلانٹ کی تنصیب روکنا شامل ہے۔ حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ آئی پی پیز کیلئے بنیادی ٹیرف ڈالر سے روپے میں منتقل کر دیا جائے۔ ٹیک اور پے کنٹریکٹ کے بجائے ٹیک اینڈ پے کنٹریک شروع کیا جائے۔ڈالر کے بجائے روپے سے پاورپلانٹس کو آئندہ برسوں میں صرف8ارب روپے ادا کرنا پڑیں گے جبکہ ڈالرز کے ذریعے 3ہزار266ارب روپے ادا کرنا پڑیں گے۔پاورپلانٹس مالکان کیلئے منافع ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے مقررکرنے سے 4ہزار 700ارب روپے کی بچت ہوگی۔مذاکراتی عمل کیساتھ انکوائری کمیشن قائم کرنے کی تیاری شروع ہوچکی تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہوسکے ۔آئی پی پیز کے معاہدوں پرنظرثانی کئے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ تاہم واضح ہے کہ ہونا کجھ وی نئیں کا وقت گذر چکا‘بہت کچھ ہونے کے قریب ہے: کھول آنکھ‘ زمیں دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ!! مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ