سٹیٹ بنک کی یہ رپورٹ حوصلہ افزا ہے کہ گزشتہ برس مئی کے دوران آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری کی نسبت ملک میں رواں سال 63فیصد سرمایہ کاری زیادہ ہوئی ہے۔ معاشی ماہرین براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کو حکومتی پالیسیوں پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ پچھلے کئی سال کے دوران پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سست روی کا شکار رہی ہے جس کی بڑی وجہ مختلف محکموں اور اداروں سے متعلق پیچیدہ نظام ہے۔ ایندھن کے نرخ زیادہ ہونے سے صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری برائے نام ہوتی رہی۔ سٹیٹ بنک کے مطابق مئی 2021ء میں ہونے والی غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 77ملین ڈالر ہے۔ ماہرین غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کی ایک وجہ معیشت کے خارجی پہلو میں بہتری کے آثار اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی بتا رہے ہیں‘ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی بڑھی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم نے پہلے روز سے سرکاری اخراجات میں کمی‘ کاروبار دوست پالیسیوں‘ سستی توانائی اور غیر ملکی سرمایہ کاری پر توجہ رکھی ہے۔ اس توجہ کی بدولت حکومت نے ایسی تمام رکاوٹوں کو دور کیا ہے جو نئی سرمایہ کاری میں حائل ہو سکتی ہے۔ رواں مالی سال اس لحاظ سے مشکل رہا ہے کہ کورونا کی وبا نے معیشت کے مختلف شعبوں کے لئے ترتیب دی گئی منصوبہ بندی کو متاثر کیا۔ جو رقوم کاروبار کی ترقی اور پیداواری سیکٹر کو رعایت کی خاطر مختص کی گئی تھیں انہیں ہسپتالوں میں کورونا وارڈ‘ آکسیجن سلنڈر‘ وینٹی لیٹرز اور ویکسین کے حصول پر خرچ کرنا پڑا۔ ہر شعبے کے بجٹ سے رقوم کاٹ کر کورونا کے انسدادی منصوبہ پر خرچ کی گئیں۔ احساس کفالت پروگرام کے تحت 200ارب روپے ان غریب اور افلاس زدہ خاندانوں میں تقسیم کئے گئے جن کا کاروبار لاک ڈائون کی وجہ سے بند ہوا یا ان کو روزگار کے مسائل لاحق ہوئے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان نے لاک ڈائون کی پالیسی سے تین ماہ کے بعد رجوع کر لیا۔ اس سے محدود اوقات میں سہی لیکن کاروباری سرگرمیاں جاری رہیں۔ اس سلسلے میں حکومت کو متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی مخالف‘ تاجر تنظیمیں اور کئی جگہ شہری حلقوں نے حکومتی پالیسی کو ناقابل قبول قرار دیا۔ آج ڈیڑھ سال بعد صورت حال اطمینان بخش ہے۔ ورلڈ بنک‘ عالمی ادارہ صحت‘ یورپی یونین‘ جی سیون اور اقوام متحدہ اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ پاکستان نے جس طرح کورونا کی وبا کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی معیشت کو تحفظ دیا یہ لائق تقلید ہے۔ یقینی طور پر دنیا کے دیگر ممالک میں جب لوگ خوفزدہ ہوکر گھر بیٹھ گئے تو عالمی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا۔ مشینیں اور کارخانے رک گئے‘ ٹرانسپورٹ بند ہو گئی‘ تیل کی کھپت نہ ہونے کے برابر ہو گئی۔ دنیا میں جب تیل کے صارفین غائب ہو چکے تھے اس وقت پاکستان میں تیل کی طلب موجود تھی۔ اسی دوران بنگلہ دیش اور بھارت کو ملے ٹیکسٹائل آرڈر ان ممالک میں کارخانوں کی بندش کی وجہ سے پورے کرنا مشکل ہو گئے تو خریداروں نے پاکستان سے رجوع کیا۔ پاکستان نے اس موقع پر بند ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے خصوصی مراعات کا اعلان کیا۔ ملک میں ریکارڈ سطح پر ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری شروع ہوئی۔ اس سے کورونا سے متاثر معیشت میں بہتری آئی۔ بے روزگار افراد کو روزگار ملا اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا۔ بر وقت حکومتی اقدامات سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان نے ایک بار پھر غیر ملکی خریداروں کی توجہ حاصل کر لی۔ حالیہ دنوں ایک مثبت پیشرفت یہ ہوئی کہ جی ایس پی پلس کی رعایت کے عوض پاکستان کو جن 27معاہدوں پر عملدرآمد کرانا تھا ان کی اکثر شرائط پر عمل کرا لیا گیا ہے۔ یورپی یونین پاکستان میں انسانی حقوق‘آزادی اظہار رائے اور سماجی شعبے کی دگرگوں حالت پر تشویش کا اظہار کرتی رہی ہے۔ پاکستان نے یورپی یونین کو صحافیوں کے تحفظ کے بل‘ جبری گمشدگیوں کے بل اور انسداد تشددقانونی بل کے حوالے سے پیشرفت سے آگاہ کیا ہے۔ یورپی یونین نے سزائے موت اور ناموس رسالت قوانین پر جو مطالبات پاکستان سے کئے ان پر پاکستان نے اپنا موقف پوری صراحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور یورپی یونین کے پالیسی سربراہ مسٹر بورل کے درمیان اس سلسلے میں تبادلہ خیال ہوا ہے۔ ملک کی مالیاتی پالیسی کے لئے یہ امر بھی خوش آئند تصور کیا جا رہا ہے کہ رواں برس کے 9ماہ کے دوران 10.6ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ادا کئے گئے۔ قرضوں کی ادائیگی سے زرمبادلہ پر دبائو آتا ہے۔ پاکستان پچھلے کئی برسوں سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا شکار ہے‘ پی ٹی آئی حکومت نے درآمدات میں کمی کر کے‘ برآمدات میں اضافہ کر کے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ترسیلات زر میں انتظامی معاونت فراہم کر کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لئے سخت محنت کی ہے۔ یہ اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ بھاری قرض کی اقساط ادا کرنے کے باوجود پچھلے چار سال کے دوران پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر بلند ترین سطح پر ہیں۔ یہ وہ پس منظر ہے جس نے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے میں مدد دی ہے۔حکومت سرمایہ کاری دوست اقدامات جاری رکھتی ہے تو بیرونی سرمایہ کاری میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔