یوں توکسی بھی حکومت کی کارکردگی کو سیاسی اہداف کے حصول کے پیمانے کے ذریعے جانچا جانا چاہیے مگر ہمارے ہاں یہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔ ہماری سیاسی حکومتیں ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنی کارکردگی اور کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر عوامل بھی ہیں جو پاکستانی ووٹرز کے ذہن پر اثر انداز ہوتے ہیں اور انہی عوامل کی وجہ سے انتخابی نتائج حیران کن حد تک غیر متوقع نکل سکتے ہیں ۔ان عوامل میں سب سے اہم عنصر جو پاکستان کی سیاست پر غالب ہے وہ’’ تبدیلی ‘‘کا نعرہ ہے۔ ہماری انتخابی سیاست میں ’’تبدیلی‘‘ عام بات اس لیے بھی ہے کیونکہ اپوزیشن ہمیشہ جو ہے اس سے مختلف اور تبدیلی کی بات ہی کر سکتی ہے! سو وہ کرتی ہے۔ حکمران جماعت کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ وہ جو تبدیلی لائی ہے اس کا بھر پور انداز میں دفاع کیا جائے۔ دلچسپ صورتحال اس وقت نہ ہو گی جب جانے والی حکمران جماعت بھی تبدیلی کا راگ الاپنے لگے؟ یہ صورت حال اس وقت اور بھی ناقابل فہم ہو جاتی ہے جب ملک میں طاقت کے مختلف ستون اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی جدوجہد میںجتے ہوئے ہوں۔ یہ صورت حال اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے جب خود مختاری اور بالادستی کے مبہم تصور نے ملکی اقتدار اور سیاست کو غیر متوازن کر دیا ہو ۔ ایسے حالات میں کوئی بھی ناکامیوں کی ذمہ داری اپنے سر لینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ بظاہر پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد آئین کے بنیادی شق کو بنایا ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کو پورا یقین ہے کہ وہ پاکستانی ووٹرز کو اس نظریہ پر قائم کرلے گی کہ حقیقی تبدیلی اسی صورت آ سکتی ہے جب ووٹ کو تکریم دی جائے گی جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے مقابل پاکستان تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد اس نقطہ پر رکھی ہے کہ ن لیگ کی قیادت بدعنوان ہے اور اس کے پاس ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے کوئی ویژن ہی نہیں۔ پی ٹی آئی عوامی سوچ کا دھارا اس طرف موڑنا چاہتی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سٹیٹس کو کی نمائندہ جماعتیں اور تبدیلی کی مخالف ہیں اور دھائیوں سے عوام کو بے سہارا چھوڑ کر قومی وسائل لوٹنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح قوم پرست جماعتوں کا نعرہ وسائل کی مساوی اور منصفانہ تقسیم ہے۔ جبکہ مذہبی جماعتیں مذہبی تبدیلی کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال کو اگر آسان اور سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو پاکستان میں تین قسم کے نعرے لگائے جاتے ہیں پہلا موروثی سیاست لعنت ہے اور یہ کہ صرف نئی قیادت ہی ملک میں تبدیلی لا سکتی ہے۔ دوسرے ملک میں صرف اور صرف سویلین بالادستی کو یقینی بنا کر تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے ۔اور تیسرا یہ کہ صرف مذہبی حلقے ہی ملک میں تبدیلی لا سکتے ہیں کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تبدیلی کے یہ نعرے عوامی امنگوں سے بھی ہم آہنگ ہیں یا نہیں! اس کا آسان جواب تو یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ نے یہ نعرے ملکی پاور پالیٹکس کے تناظر میں گھڑے ہیں۔ جبکہ مڈل کلاس کی اکثریت اپنے معاشی اقتصادی تناظر میں تبدیلی کو دیکھتی ہے جو بہت سے نظریاتی اور سیاسی ابہامات کا شکار ہے۔ یہ دو عملی ہمارے نظام سے میل نہیں کھاتی۔ سیاسی جماعتیں بھی اس جدوجہد میں مصروف ہیں کہ وہ اپنے منشور کو عوام کی اکثریت کی خواہش سے ہم آہنگ بنا سکیں جو زیادہ تعداد میں دیہی علاقوں میں آباد ہیں۔ پیپلز پارٹی کو ماضی میں دیہی اور محروم طبقات کی نمائندہ جماعت تصور کیا جاتا رہاتھا مگر بدقسمتی سے اب اس جماعت کو بھی شہری تبدیلی کے نعروں نے یرغمال بنالیا ہے۔ ہمارے دانشور اور ماہرین سیاسیات بھی تبدیلی کو شہری مڈل کلاس کے تناظر میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ ڈاکٹر عمارہ مقصود نے اپنی کتاب’’ پاکستان میں نئی مڈل کلاس‘‘ میں پاکستان کی شہری آبادی کی مڈل کلاس کی مذہبی وابستگی کیا ہے اور ملک و قوم کی ترقی کے حوالے سے کس قسم کی تبدیلی کی خواہش مند ہے پر لکھا ہے۔ان کے مطابق پاکستان کی نئی مڈل کلاس مذہب اور جدیدیت کے مابین توازن کی متمنی ہے انہوں نے اپنے تھیسس میں نئی مڈل کلاس کی آرزوئوں کی وضاحت کی ہے جن میں سے زیادہ کا تعلق سروسز اور تعلیم کے شعبہ سے ہے اور یہ مڈل کلاس کس طرح ملک کے دیگر طبقات سے اپنے تعلیمی پروفائل کے لحاظ سے اہم ہے۔ یہ مڈل کلاس بحیثیت قوم اپنی پہچان کی آرزو مند ہے اور اپنی تہذیب کو جدیدیت سے ہم آہنگ کرنے کی خواہش مند ہے ان کا تہذیب کا تصور بھی محدود ہے جس کا زیادہ تعلق مذہب سے ہے یہ طبقہ اپنی قیادت کو جدید نظریات اور عقل وفہم سے مزین دیکھنا چاہتا ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے اس طبقہ کی تعداد نچلے طبقہ سے خاصی کم ہے یہاں تک کہ پاکستان میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں مڈل کلاس سماجی معاشی اعتبار سے مزید مختلف حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے ۔بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے پولیٹیکل سائنس کے شعبہ نے ایک سروے کروایا جس کے مطابق انکم پروفائل کا ووٹر کے رجحان سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 2008ء کے انتخابات میں 38.3فیصد ووٹر جن میں 13.1فیصد دیہی اور 20.9فیصد شہری اور 4.3فیصد قصبات کے ووٹر ملک میں جمہوری عمل کے حامی تھے۔جبکہ 14.3فیصد ،جن میں 4.6فیصد دیہی اور 7.1فیصد شہری ووٹر شامل ہیں ،کا خیال تھا کہ پاکستان میں بیلٹ کے ذریعے تبدیلی ممکن ہی نہیں۔ سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ جن لوگوں کی ماہانہ آمدنی 6000سے 24ہزار کے درمیان ہے وہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی کے زیادہ مشتاق ہیں۔ اس طرح کی ایک سٹڈی ملک کے نامور ماہر سیاسیات محمد وسیم نے بھی کروائی جس سے یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت انتخابی سیاست کا حصہ اس لیے بن ر ہے ہیں کیونکہ ان کو سیاسی عمل میں اپنے کردار کی اہمیت کا اندازہ ہوتا جا رہا ہے اسی طرح متعدد سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں شہری علاقوں میں آبادی کا بڑھتا رجحان بھی سروسز اور انفراسٹرکچر کے ڈھانچے پر مسلسل دبائو بڑھا رہا ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین کا خیال ہے کہ شہری علاقوں میں آبادی کا بڑھتا بوجھ بھی غیر رسمی معیشت کی بڑی وجہ بنا ہوا ہے۔ انہوںنے وضاحت سے بیان کیا ہے کہ کس طرح دیہی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد غیر رسمی معیشت میں سما جاتے ہیں ۔ملک کی یہ نئی مڈل کلاس نچلے طبقے میں توازن قائم رکھنے کی کوشش بھی کر رہی ہے اور یہ طبقہ بہتر انفراسٹرکچر اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو دیگر سیاسی مسائل پر زیادہ فوقیت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی عوام کے بعد شہری علاقوں میں آباد یہی طبقہ انتخابی نتائج میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے ۔باوجود اس کے کہ پاکستان میں 119سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں اور ان میں سے ہر ایک جماعت کے پاس پرکشش تبدیلی کے نعرے بھی ہیں مگر ان کے تبدیلی کے نعرے پاکستانی عوام کی اکثریت کے تبدیلی کے نعرے سے میل نہیں کھاتے۔