توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے کوئی دیکھے گا تہہ آب نظارے سارے نظر انداز کیا میں نے بھی دنیا کو اور دنیا نے بھی قرض اتارے سارے دریا اپنے کناروں میں بہتا اچھا لگتا۔ جب یہ بپھر جائے تو اپنے ہی کنارے توڑ دیتا ہے اور دوسروں کے لئے بھی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ گرنا تو اسے پھر بھی سمندر میں ہوتا ہے’’میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا’’کہہ کر احمد ندیم قاسمی نے وحد الوجود کی جانب ہی اشارہ کیا ہے۔ میں تو مگر دریا تک ہی بات محدود رکھوں گا۔ یہ دریائے سندھ ہے جس کی تہذیب 5ہزار سال پرانی ہے۔عبرت اک چھٹانک میسر نہ آ سکی کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے‘ پرانے کلچر کو تو میں نہیں جانتا مگر اپنی ہوش میں ہم نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا کلچر ہی دیکھا ہے جو اب ذرا اور بدل گیا ہے۔ ایک شعر شاید کچھ بیان کرے کہ: اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ میرے معزز و محترم قارئین!حالیہ یعنی لمحہ موجود کی صورت میں جو پیدا ہوئی ہے اچھی خاصی دلچسپ ہے اور مضحکہ خیز بھی۔ یہ ریٹائرڈ کیپٹن صفدر مادر ملت فاطمہ جناح زنادہ باد ،کے نعروں سے شروع ہوئی، یہ نعرہ غلط تو نہیں مگر غلط جگہ پر لگایا گیا۔ پہلی بات یہ کہ ایسے مقامات پر انتہائی سنجیدگی اور خاموشی کے ساتھ احترام اور تقدس کو پیش نظر رکھا جاتا ہے ہمیں فاتحہ کا حکم ہے۔ دوسری بات یہ کہ ووٹ کو عزت ان محسنین نے تو نہیں دینی۔ مجھے اپنے دوست کی بات بہت اچھی لگی کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ تو انہیں جنرل ضیاء الحق کے مزار پر لگانا چاہیے تھا کہ جنہوں نے پہلے نواز شریف اینڈ فیملی کو عزت دی تو ان کو ووٹوں سے نوازا۔ اس کے بعد ایم کیو ایم کو تخلیق کیا جو ن لیگ سے لے کر پی ٹی آئی تک سب کی شریک اقتدار ہے: اتنی نہ بڑھا پا کئی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ ویسے ایک بات ہے کہ اگر ووٹ کو کسی دور میں عزت ملی تو وہ پرویز مشرف کا دور تھا کہ جس میں ق لیگ کو مشرف بہ معتدل پاکستان کیا گیا۔ میں اس کی آئین شکنی کو نہایت غلط سمجھتا ہوں اور ایمرجنسی لگانا بھی قابل گرفت مگر اس نے بلدیاتی انتخابات کروا کے عام لوگوں کو شریک اقتدار کیا۔ اس کے بعد آج تک ان جمہوریت پسندوں کو توفیق نہیں ہوئی کہ بلدیاتی الیکشن کروائیں۔ اگر عدلیہ کے حکم پر کروائے تو مزید ستیاناس کیا کہ سب کا خرچہ بھی کروا دیا اور کسی کو قریب بھی پھٹکنے بھی نہیں دیا۔ گیارہ گیارہ وزارتیں اپنے پاس رکھیں۔ پیپلز پارٹی آئی تو عدلیہ کے ہر سزا یافتہ کو ثمرمند کیا اور مزید اچھی جگہ بٹھا دیا۔ جن کو جیل میں ہونا چاہیے تھا وہ مسند نشین ہوئے۔کچھ اپنا کردار لے کر آئے تو آ کر ہوا کے الٹے رخ اڑے تو پر کٹوا بیٹھے پھر: خود مصنف نے اسے لا کے کہیں مار دیا ایک کردار جو کردار سے آگے نکلا معاملہ اتنا سیدھا نہیں۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں۔ کچھ مسئلہ تو پھر باریوں کا ہے۔ تیسرا بھی تو حصہ دار آ گیا اور چوتھا مکمل حصہ مانگ رہا ہے۔ اگر آپ کی چھٹی حس نہیں بھی تو کوئی بات نہیں۔ پانچ حسوں سے بھی کام چل سکتا ہے یعنی حواس خمسہ بتا رہے ہیں کہ بلاول اپنی باری چاہتے ہیں جو کہ خاصی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ آئی جی کے غائب ہونے کا بہانہ ان کے ہاتھ میں آگیا ہے اور یہ بہانہ کارگر ثابت ہوا کہ صاحب سے دعا سلام ہو گئی۔ ایک دلاسہ مل گیا۔ کسی دل پہ تسلی کا ہاتھ رکھا ہے۔ وزیر اعظم بے چارے اپنی جگہ لال پیلے ہوئے جاتے ہیں۔ عوام چیخ رہی ہے کہ کوئی پرسان حال نہیں۔ خان صاحب مگر مہنگائی پر پندرہویں دفعہ برہم ہوئے ہیں جبکہ عوام درہم برہم ہو چکی ہے او کوئی مرہم رکھنے والا نہیں۔ ان کو اس سے کیا لینا کہ کون غائب؟کس نے کیا اور کس کس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ ہمارے ہاں تو لوگ پولیس سے ویسے ہی اکتائے ہوے ہیں کہ بعض اس محکمے ہی کے خلاف ہیں یقینا یہ پنجاب پولیس کی کارکردگی کے باعث ہے کہ کوئی تھانے کے قریب سے نہیں گزرتا۔ سندھ پولیس نے اب انگڑائی لی ہے۔تو اس کو سلام پیش کیا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے ہوتے ہوئے وہ بے چارے فارغ تھے۔ ہمیں ان سے ہمدردی بھی ہے کہ انہوں نے دہشت گردی ختم کرنے میں نصیراللہ بابر کا ساتھ دیا اور بعدازاں 100 ایس ایچ اوز ایک ایک کر کے ایم کیو ایم نے مار دیے۔اس بات کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ایک مرتبہ پھر پولیس سیاسی بن گئی اور زرداری کا مرد بچہ انوار رائو جس کے عہد میں جوان نجیب اللہ محسود کا قتل ہوا۔ اس عہد سے پہلے کا نقشہ بھی سجاد میر صاحب نے بائیس اکتوبر کے کالم پیش کیا ہے۔ قمر جاوید باجوہ صاحب نے اچھا کیا کہ کور کمانڈر کو انکوائری کا حکم دیا۔واقعتاً سچ سامنے آنا چاہیے۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ: ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے سب ا سی زلف کے اسیر ہوئے میر سے یاد آیا کہ الماس شبی نے بھی لکھا ہے کہ سیاسی کالم میں ادب کا تڑکا بہت اچھا لگتا ہے۔ ذائقہ دو چند ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس نے ایک خوبصورت شعر بھیجا ہے۔ ذرا اک تبسم کی تکلیف کرنا۔ کہ گلزار میں پھول مرجھا رہے ہیں۔ واقعتاً باہر بیٹھے ہوئے ہمارے پاکستانی بہت پریشان ہیں کہ وطن عزیز کے حالات کس رخ کو جا رہے ہیں۔ رہی سہی کسر اپوزیشن نے نکال دی ہے کہ ایک ابتری پھیل گئی ہے۔ حکومت کی توجہ بھی ساری ان کو کائونٹر کرنے کی طرف ہے۔ ان کی قوت پہلے بھی غلط سمت میں ضائع ہو چکی ہے۔ ایک سوال ہر پاکستانی کرتا ہے کہ ٹیکسوں کی بھر مار ہے چیز کی قیمت ڈبل ہو چکی دوائی تو چار گنا مہنگی ہو چکی باہر سے قرضے بھی تاریخ میں سب سے زیادہ لئے گئے۔ ظاہر ہے کہ اس میں سے عوام پر کیا خرچ ہوا لوئر مڈل کلاس مانگنے پر آ گئی کیا کریں سب لکھنے والے تان یہاں آ کر توڑتے ہیں کہ مہنگائی نے غریب کی تو کمر ہی توڑ دی۔ بلاول نے ایک دفعہ پھر اپنے نانا حضور کی طرح نعرہ لگا دیا ہے کہ مہنگائی صرف پیپلز پارٹی ختم کر سکتی ہے۔