عورت کی عظمت کے بارے میں ایسا خوبصورت قول شاید آپ کی نظر سے نہیں گزرا ہو گا۔ دنیا کے انقلابات ماں کی آغوش میں پروان چڑھتے ہیں۔ یوں تو ہر سال 8مارچ کو ساری دنیا میں وومن ڈے کسی نہ کسی شکل میں منایا جاتا ہے مگر روس میں اس دن کا اہتمام بڑے جذبے اور شان و شوکت سے کیا جاتا ہے۔ اس روز روس میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ وومن ڈے پر ہر عمر اور مرتبے کی خواتین کو پھول اور تحائف پیش کئے جاتے ہیں۔ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور دعوتوں میں انواع و اقسام کی ڈشیں ذوق و شوق سے تیار کی جاتی ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو روس میں سارا سال ہی وومن ڈے جاری رہتا ہے۔ روس کے روٹین وومن ڈے کی ایک جھلک دیکھئے۔ ایک خاتون وردی پہن کر ڈرون طیارہ فضا میں لانچ کرتی دکھائی دیتی ہے، خواتین خوشنما وردی زیب تن کر کے نیوز ایجنسی میں کام کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں، کوئی خاتون کسی واچ فیکٹری میں گھڑیاں تیار کر رہی ہو گی، کوئی خاتون خلا بازوں کے لیے مخصوص فوڈ کی تیاری میں مگن دکھائی دے گی، کہیں کوئی خاتون پولیس افسر پستول سے نشانہ لیتے ہوئے کسی قانون شکن کے پیچھے بھاگتی ہوئی دکھائی دے گی۔ جناتی مشینوں سے نبرد آزما روسی عورت شبستانوں میں شمع محفل کے روپ میں بھی جلوہ گر ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عورت کو آخر میں چراغ خانہ بھی بننا پڑتا ہے۔ یہ ہے ’’عورت کی آزادی کی کہانی‘‘ خود اس کی اپنی زبانی۔ جب وومن ڈے آتا ہے تو مجھے مرحوم اشفاق احمد بہت یاد آتے ہیں۔ اشفاق احمد افسانہ نویس تھے، ڈرامہ نگار تھے، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے بہت بڑے آرٹسٹ تھے، ناصح تھے اور کڑوی سے کڑوی نصیحت کو شکر میں گھول کر سامع کو یوں پلاتے کہ وہ مدتوں اس فرحت بخش شربت کا ذائقہ نہ بھول پاتا اور سب سے بڑھ کر اشفاق احمد ایک صوفی بھی تھے اور وہ اپنے کلام کی حلاوت سے دلوں کی دنیا بدل دیتے تھے۔ مرحوم اشفاق احمد سے جب ان کی زندگی کے آخری دنوں میں ایک اینکرنے پوچھا کہ آپ نے زندگی کو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھا اور ’’زاویہ‘‘ کے نام سے کتب بھی مرتب کیں اور تقریباً ہر صنف ادب میں آپ نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، کیا کوئی ایسا موضوع ہے جو آپ کی نظر میں تشنہ رہ گیا ہو اور آپ اس پر اظہار خیال نہ کر سکے ہوں تو اشفاق احمد نے برجستہ جواب دیا ہاں! میں امریکہ کی مظلوم عورت کے بارے میں ایک کتاب کا خاکہ ذہن میں ترتیب دے چکا تھا مگر اس کے لکھنے کی نوبت نہ آئی، مجھے اس کا بہت قلق ہے۔ یہ مختلف ایام کیوں منائے جاتے ہیں؟ ذرا گہرائی سے سوچیں تو اندازہ ہو گا کہ کبھی مدرزڈے، کبھی فادرز ڈے، کبھی ٹیچرز ڈے، کبھی وومن ڈے وغیرہ وغیرہ یہ سب ایام دراصل اس تشنگی کی نشاندہی کرتے ہیں جو مغرب میں ان رشتوں کی حقیقی روح کے دم توڑنے سے وہاں پر صاحب احساس کو محسوس ہوتی ہے۔ امریکہ میں کام کرنے والے ایک نوجوان طبیب ڈاکٹر بلال نے مجھے بتایا کہ ایک امریکی ہسپتال میں ایک بڑھیا ان کے زیرِ علاج تھی۔ بڑھیا اپنے بیٹے کو بہت یاد کرتی تھی، جب مدرز ڈے پر بھی امریکی خاتون کے بیٹے کا فون یا کارڈ نہ آیا تو وہ بہت رنجیدہ ہوئی۔ اس کی دردناک حالت کو دیکھتے ہوئے ہم نے بڑھیا کے بیٹے سے بڑی مشکل سے رابطہ کیا تو اس نے جواب دیا۔ ڈاکٹر! میں بہت مصروف رہتا ہوں۔ آئندہ مجھے ایسی کال نہ کرنا۔ جب بوڑھی امریکی مریضہ نے مجھ سے پوچھا۔ ڈاکٹر! تم اپنی ماں سے کب بات کرتے ہو؟ میں نے شیخ سعدی کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے دروغ مصلحت آمیز سے کام لیا اور کہا کہ کبھی کبھی حالانکہ میں تقریباً ہر دوسرے روز ضرور اپنی والدہ سے بات کرتا ہوں۔ اسی نوجوان پاکستانی ڈاکٹر نے مغرور بوائز فرینڈز کی خستہ حال بیمار گرلز فرینڈز اور کئی کئی بچوں کی مائوں کو اچانک چھوڑ جانے والے ان کے بے نکاح اور بے لگام ’’شوہروں‘‘ کے دردناک واقعات بھی سنائے۔ روزمرہ امریکی زندگی کے اس غمناک پہلو کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شدت احساس کی دولت سے مالا مال اور دل کی تہوں میں چھپے ہوئے درد و الم کو پڑھ لینے والے اشفاق احمد مظلوم امریکی عورت کی کہانی اپنی زبانی نہ بیان کر سکنے پر حقیقی معنوں میں رنجیدہ خاطر تھے۔ ایک قابل فخر بات آپ سے شیئر کر لوں، جب محسن انسانیتﷺ کا ظہور ہوا اس وقت پوری انسانیت تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ لے دے کے فارس و روم سیاسی شان و شوکت کے پھریرے لہرا رہے تھے۔ مگر رومی و ایرانی شیش محلوں کے اندر بدترین مظالم کا دور دورہ تھا اور اس دورِ وحشت میں بیچاری عورت سب سے بڑھ کر مظلوم تھی۔ اس وقت اللہ کے رسولؐ نے عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دیئے بلکہ مردوں کو بارہا تلقین کی کہ عورتوں کا بہت خیال رکھو۔ ایک بار آپ نے کسی سفر کے دوران ساربانوں سے کہا کہ خیال رکھنا تمہارے اونٹوں پر آبگینے ہیں اس لیے احتیاط سے اونٹوں کو چلانا مبادی کسی خاتون کو کوئی چوٹ لگ جائے۔ تجھے پرائی کیا پڑی ہے اپنی نبیڑ تو کے مصداق اب ذرا گھر کی خبر لیں۔ تبدیلی والوں کے ساتھ بڑے سہانے خواب اور بڑی خوبصورت امیدیں وابستہ تھیں مگر موجودہ حکمران بھی پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں، مجال ہے جو انہوں نے پامال راستوں کو چھوڑ کر کوئی نئی شاہراہ، تو دور کی بات کسی نئی پگڈنڈی کا ہی انتخاب کیا ہو۔ تبدیلی تو تب آتی جب جناب عارف علوی سندھ میں تھرپارکر یا بلوچستان یا خیبر پی کے یا پھر پنجاب کے دیہاتی علاقوں کی محنت کش اور زیور تعلیم سے محروم عورت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے اور وہاں وومن ڈے مناتے۔ اس موقعے پر جناب صدر قوم کو بتاتے کہ ہم مظلوم پاکستانی عورت کی حالت کیسے اور کتنے عرصے میں سنواریں گے۔ میں چاہوں تو تعلیمی و سماجی طور پر مظلوم پاکستانی عورت کے بارے میں تفصیلی اعدادوشمار پیش کر سکتا ہوں مگر خشک اعدادوشمار سے درد کی وہ لہر محسوس نہیں کی جا سکتی جو زندہ مثالوں سے واضح ہوتی ہے۔ سابق امریکی خاتون اول اور سابق صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے ایک پتے کی بات کہی۔ عورتیں وہ ٹیلنٹ ہیں کہ جسے ساری دنیا میں ابھی تک ڈسکور ہی نہیں کیا گیا۔ سابق برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر جس کا لقب آئرن لیڈی تھا کے ساتھ بھی ایک دلچسپ قول منسوب ہے۔ سیاست میں کوئی دھواں دھار بیان دلوانا ہو تو کسی مرد کے ذمے لگائیں اور اگر عملاً کسی منصوبے کو تکمیل تک پہنچانا ہو تو یہ ذمہ داری کسی عورت کو سونپیں۔ تبدیلی بلکہ سپر تبدیلی کے دعویدار عمران خان ایک کروڑ ملازمتیں دیں نہ پچاس لاکھ گھر تعمیر کریں اور نہ ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہائیں وہ اگر پاکستان کی ہر بچی کو لازمی طور پر زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا پروگرام شروع کر دیں تو اس سے عظیم تبدیلی آئے گی اور تاریخ میں عمران خان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں