ڈاکٹر اسرار احمد کی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں اْنہوں نے ہولوکاسٹ کے متعلق بات کرتے ہوئے فرمایا کہ اسرائیل میں رہنے والے یہودی بجھنے سے پہلے شاید آخری بار شعلوں کی مانند جل رہے ہیں جس میں وہ کوشش کریں گے کہ مسلمانوں کو خون میں نہلا دیں لیکن یہ قبل از قیامت اْن کا آخری ظلم ہوگا جس کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے۔ وہ بتا رہے تھے کہ پچھلی صدی میں جرمن چانسلر ہٹلر کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔دراصل پورے مشرقی یورپ میں جہاں جہاں جرمن چانسلر ہٹلر کی حکومت قائم ہوئی تھی وہاں سے یہودیوں کو کھینچ کھینچ کر حراستی مراکز میں لایا گیا۔ پھر خاص مشینیں ایجاد کی گئیں کیونکہ سوچا گیا کہ اِتنے لوگوں کو قتل کریں گے تو اْنہیں دفن کہاں کریں گے؟ پھر خاص قسم کے پلانٹس بنائے گئے جن میں داخل ہوتے ہوئے اْ ن کے کپڑے تک اْتار لیے جاتے تھے تاکہ بعد میں اْن کے کپڑے بھی استعمال کئے جاسکیں۔ لیکن کپڑے اْترواتے وقت انہیں کہا جاتا تھا کہ اْن کے کپڑوں میں جوئیں پڑ گئی ہیں، اْتروانے کے پیچھے انہیں صاف کرنا مقصود تھا۔ پھر اْن کے بال اْتروالئے جاتے۔ اْن بالوں سے قالین بنوائے گئے جو نازیوں نے اپنے دفتروں میں بچھائے۔ تاریخ ِانسانی میں یہ پہلی بار ہوا کہ قتل کئے گئے افراد کے بالوں سے قالین بنا کر استعمال میں لایا گیا۔ جب یہودیوں کے کپڑے اْتروا لئے جاتے تو انہیں گیس کے چیمپرز میں لایا جاتا تھا۔ جہاں انہیں بے ہوش کرنے کے بعد ابدی نیند سلا دیا جاتا۔ بعد ازاں پلانٹس کے اندر بڑے بڑے پٹوں کے اوپر مردہ یہودیوں کی نعشیں چل رہی ہوتی تھیں، پھر اْن نعشوں کا چورا بنایا جاتا تھا پھر خاص قسم کے کیمیکلز کے اَندر انہیں تحلیل کردیا جاتا۔ آخر میں اْن پلانٹس سے کیا نکل رہا ہے اْس سے کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ نہ تو ہڈیاں ہوتیں اور نہ ہی جسم کا کوئی اور حصہ بلکہ آخر میں کالے رنگ کا مائع باہر نکلتا تھا جسے نازیوں نے اپنے کھیتوں میں بطور کھاد استعمال کیا۔ اِسے ہولوکاسٹ کہا گیا۔ چالیس لاکھ افراد کا اِس انداز میں قتل تاریخ ِ انسانی میں انتہائی اندوہناک ہے۔ حیران کن طور پر اس واقعہ کے محرکات دیکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کا قتل خالصتاََ عیسائی عقیدہ رکھنے والے حکمرانوں کے ہاتھوں ہوا۔ جرمن نہ تو مسلمان تھے اور نہ مسلمانوں کو پسند کرتے تھے۔ بلکہ ساری جرمن حکومت عیسائی عقیدہ رکھنے والے حکمرانوں پر مشتمل تھی۔ اِن سبھی وزراء میں سے کوئی ایک حکومتی رہنما مسلمان نہیں تھا۔ بلاشبہ ہولوکاسٹ تاریخ ِ انسانی کے بدترین واقعات میں سے ایک واقعہ تھاجس کی باقی واقعات کی طرح مذمت کی جانی چاہئے۔ مگر حیرت انگیز طور پر ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں نے عیسائی رہنماؤں کی بجائے دین ِ اسلام کو اپنے نشانے پہ رکھ لیا اور دنیا بھر میں یہودیوں نے مسلمانوں کو اپنا دشمن قرار دیا۔موجودہ اسرائیلی رہنما نیتن یاہو کے ایک بیان کے مطابق ہولوکاسٹ ہٹلر کا منصوبہ تھا ہی نہیں بلکہ یروشلم کی مسجد کے ایک مفتی حاجی امین الحسینی نے جرمنی میں جاکر ہٹلر کو قائل کیا کہ یہودیوں کو صفحہ ِ ہستی سے مٹادیا جائے۔ نٹین یاہو کے مطابق ہٹلر یہودیوں کو محض جرمنی سے نکالنا چاہتا تھا مگر حاجی امین الحسینی نے ہٹلر سے کہا کہ اگر اْس نے یہودیوں کو نکال دیا تو وہ واپس آئیں گے۔ جس پر ہٹلر نے پریشانی کے عالم میں پوچھا تو پھر کیا کرنا چاہئے؟ جس پر امین الحسینی نے کہا کہ انہیں ’جلادو‘۔ جس پر ہٹلر نے حراسی مراکز بنائے اور یہودیوں کو مار دیا گیا۔ نیٹن یاہو کے بیان کو جس قدرمضحکہ خیز قرار دیا جائے اْتنا ہی کم ہے۔ اسرائیلی رہنما نے یہ بتانا گوارا نہیں کیا کہ ہٹلر اور الحسینی کے درمیان اس قدر گہری ’محبت‘ کے پیچھے کیا مفادات پنہاں تھے؟ ہٹلر نے الحسینی کا مشورہ کیوں مان لیا؟ بدلے میں الحسینی نے ہٹلر کو کیا مراعات دیں؟ ہٹلر کو اسلحے، زمین اور دیگر سہولیات کی مد میں کتنی رقم فراہم کی گئی؟ اس کے بارے میں نتین یاہو سمیت پوری یہودی قوم خاموش ہے۔نیتن یاہوکے مطابق یروشلم کا مفتی اْٹھ کر ہٹلر سے کہتا ہے کہ ساٹھ لاکھ انسان جلاد و اور ہٹلر بنا کسی سوال و جواب کے ایک نامعلوم مفتی کا حکم بجا لاتا ہے۔ حیرت ہے کہ یہودیوں نے ہولوکاسٹ کے پیچھے بھی مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرانے کے لئے کیا کہانی گھڑی ہے۔ یقینی طور پر یہی وجہ ہے کہ فلسطین میں گزشتہ ستر سال سے اِ ن یہودیوں کے ہاتھوں نہتے مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔اْردن، شام اور لبنان کے علاقوں میں گھس کر اِنہی یہودیوں نے مسلمانوں کا قتل ِ عام کیا ہے اور کئی لبنانی، اردنی اور شامی علاقوں پر غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے۔ آج تک اسرائیلی یہودی اقوام ِ متحدہ کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ جب بھی فلسطین کے حق میں کوئی قرار داد پاس ہونے لگتی ہے تو یہی یہودی اْس قرار داد کے آڑے آجاتے ہیں۔مسلم دنیا خاموشی کی لمبی چادر تان کر سورہی ہے۔ چلیں ایک لمحہ کیلئے اگر مان لیا جائے کہ فلسطین اور اسرائیلی کے درمیان زمین کے تنازعہ پر جنگ چل رہی ہے اور دونوں جانب سے پیش قدمی جاری رہتی ہے اور اس سارے معاملے کو لمحہ بھر کے لئے دونوں فریقین کے درمیان اندرونی مسئلہ مان لیا جائے پھر بھی بھارت کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں کا خون بہنے پر آج تک اقوام ِ متحدہ میں اسرائیل نے ہمدردی کی قرارداد پاس کرنے میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ بلکہ ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ اسرائیل بھارت کے جرم میں برابر کاشریک رہا ہے اور آج تک بھارت کے ہر ظلم میں ساتھ دیتا آرہا ہے۔ اِس لئے یہودی قوم کے جید رہنماؤں کوآزاد سوچ کے ساتھ اپنی تاریخ کو نیٹن یاہو کی آنکھ سے نہیں بلکہ اپنی آنکھ سے دوبارہ پڑھنا چاہئے۔تاریخ ِانسانی گواہ ہے کہ آج تک کسی مسلمان حکمران نے کمزور پر وار نہیں کیا بلکہ مسلمانوں نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا ہے جس کا واضح ثبوت یہودیوں کو خود اپنے گولڈن ڈائیسپورا کے دور میں ملتا ہے۔جب سپین میں جس قدر مسلمان حکمرانوں کے ہاتھوں یہودیوں کو قدر ومنزلت، وسائل، عہدے اور سہولیات فراہم کی گئیں خود یہودی اْسے اپنے لئے سنہرا دور قرار دیتے ہیں۔ اِس کے باوجود بھی مسلمانوں پر ظلم و ستم چہ معنی درد؟