میرے گھر میں دو وکیل ہیں‘ میرے دوستوں میں دس بارہ وکیل ہیں‘ یہ سب اصلی ڈگری والے‘ ادبی ذوق و سماجی شعور رکھتے ہیں۔ پنجاب کارڈیالوجی پر جن وکلا نے حملہ کیا وہ کوئی اجنبی لوگ ہیں جنہیں نہ میں جانتا ہوں نہ معاشرہ ان کی افادیت سے واقف۔ ہم نے ایس ایم ظفر‘ عابد منٹو‘ نعیم بخاری‘ عارف چودھری جیسے لوگ دیکھ رکھے ہیں۔ تلخ بات کا دلیل سے جواب دینے والے‘ شعر کہہ کر دوسرے کو خاموش کرا دینے والے‘ ایک کتاب کے حوالے پر درجنوں کتابوں کا حوالہ دینے والے‘ سماج سے رابطہ رکھنے والے اور سماج میں اپنی حیثیت سے واقف۔ حملہ ہوا۔ ہسپتال کا فرنیچر‘ آلات‘ گاڑیاں‘ کھڑکیاں ‘ دروازے ‘ عملہ ‘ مریضوں کے لواحقین اور خود مریض نشانہ بنائے گئے لاہور کے ہزاروں وکلا میں سے ڈھائی تین سو لشکری تھے۔ گالی ساری برادری کو مل رہی ہے، برا بھلا پیشے کو کہا جا رہا ہے۔ عدم اعتماد پورے طبقے پر ظاہر کیا جا رہا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ جو حملے میں شامل نہ تھے وہ برے کو برا کہنے کی جرأت سے محروم ہیں۔ بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز اب تک اپنے طور پر کوئی کارروائی نہیں کر سکیں۔ ایک بار پھر قصور واروں کو سزا دینے کی بجائے معافی تلافی اور مصالحت کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ عدالتیں فیصلہ دینے کی بجائے راہ دکھا رہی ہیں کہ معاملات کو عدالت سے باہر گلدستوں کے ذریعے طے کر لیا جائے۔ زخموں پر انصاف کی مرہم رکھے بنا ایسا کیا گیا تو قانون کی بالادستی کو جتھے کے سامنے ذبح کرنے کے مترادف ہو گا۔ قانون تو مذاق بن چکا، یہ سماجی اصولوں کے بھی خلاف ہو گا۔ سماجی اصولوں کی خلاف ورزی جاری رہے تو سماج بکھر جاتا ہے۔ کیا اس سماج کو بکھرنے دیا جائے جسے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور عظیم جنگ لڑ کے بچایا گیا ہے۔ اگر ہمارے دہشت گرد بھائیوں‘ بیٹوں کو سڑکوں‘ تعلیمی اداروں‘ عدالتوں اور ہسپتالوں میں دھماکے کرنے اور فائرنگ پر معافی دیدی جاتی تو کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی تھی؟ جس طرح قانون کی کتابوں میں برطانوی‘ امریکی ‘ فرانسیسی و روسی آئین کے حوالے ہیں‘ صرف آئین ہی نہیں مقامی قوانین کے ارتقا اور نظام انصاف کے متعلق بتایا جاتا ہے۔ قومی اور مقامی قوانین کے ساتھ بین الاقوامی قانون کا کچھ حصہ بھی پڑھایا جاتا ہے‘ اسلامی قوانین سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد دیہات و شہروں تک محدود رہنے والی سوچ کو پورے معاشرے کی قانونی سوچ سے ہم آہنگ بنانا ہے، باقی دنیا سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ پڑھتے ہوئے قومی انسانی حقوق کمشن کا ذکر بھی آتا ہے۔ وہ انسانی حقوق کمشن جس کا ایک دفتر پاکستان میں بھی ہے اور جس نے ابھی تک کارڈیالوجی سانحہ پر ایک سطر کا مذمتی بیان جاری نہیں کیا۔ ایسا کیوں نہیں کیا گیا اس کی بڑی ٹھوس وجہ ہے۔ اس کمشن کے سربراہ جسٹس (ر) علی نواز چوہان ہیں۔ یہ کمشن 1012 ء کے ایکٹ 16 کے تحت قائم ہوا۔ ایک دوسرا ادارہ ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان ہے۔ اس کے سربراہ معروف استاد ڈاکٹر مہدی حسن ہیں، شریک چیئرپرسن عظمیٰ نورانی ہیں۔۔ ’’مجھاں مجھاں دیاں بہناں ہوندیاں نیں‘‘ اپنے بھائیوں کو بین الاقوامی پابندیوں سے بچانے کے لئے دونوں ہیومن رائٹس کمشنوں میں بیٹھے وکلا بیان جاری کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ سول سوسائٹی ‘ ڈاکٹروں‘ میڈیا اور وکلا کی منفی سرگرمیوں سے متاثر افراد کو نیشنل ہیومن رائٹس کمشن نے اہمیت نہ دی تو معاملہ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمشنر کو بھیجا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں ایک تحقیقاتی مشن پاکستان آئے گا۔ جن کو عدالتوں میں مارا پیٹا گیا، انصاف لینے سے روکا گیا، ان کے بیانات لے گا اور مقامی ہیومن رائٹس کمشن سے لے کر وکلا تنظیموں تک پر پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ ایسا ہوا تو وکلا رہنمائوں کو مغربی ممالک میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے‘ وکلاء تنظیموں کو حکومتی اور بین الاقوامی فنڈنگ پر پابندی عائد ہو سکتی ہے۔ پورے سماج نے وکلاء کی سرگرمیوں پر جس شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وکلا کبھی ہیرو تھے کیونکہ وہ طاقتوروں کے خلاف کمزور کی طاقت بنتے تھے۔ آج پورے سماج میں یہ ان کی افادیت کی بحث شروع ہو چکی ہے۔ سماج جب کسی بات پر یکساں انداز میں سوچنے لگتا ہے تو پھر اس سوچ کو ریاست اور شہری کے درمیان معاہدے یعنی آئین میں اضافی شرط کی صورت میں درج کر لیا جاتا ہے۔ بہت سے ادارے اس لئے ختم ہو گئے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ سماج کے لئے تسلی بخش خدمات انجام نہ دے سکے۔ وکیل جب یونیفارم پہن لیتا ہے تو فرد کی بجائے سماجی خدمت کا ایک ادارہ بن جاتا ہے۔ یہ ادارہ بدامنی‘ انتشار اور قانون شکنی کی راہ پر چل نکلا ہے تو سماج اس کو بدلنے پر غور کر سکتا ہے۔ جہاز پر ایک استاد‘ ایک ڈاکٹر‘ ایک وکیل‘ ایک ضعیف اور ایک بچہ سفر کر رہے تھے۔ اچانک خرابی پیدا ہو گئی۔ پائلٹ نے چھلانگ لگاتے ہوئے بتایا کہ جہاز میں چار پیراشوٹ ہیں ان کی مدد سے کود جائو۔ استاد نے کہا کہ وہ بچوں کو تعلیم دیتا ہے اس کا زندہ رہنا ضروری ہے‘ وہ ایک پیراشوٹ بیگ اٹھاتا ہے اور چھلانگ لگا دیتا ہے۔ ڈاکٹر کہتا ہے :میں بیماروں اور پریشان حال لوگوں کا علاج کرتا ہوں۔ سماج کو میری ضرورت ہے۔ وہ بھی ایک پیرا شوٹ اٹھا کر کود جاتا ہے‘ وکیل چکنی چپڑی باتوں اور حس مزاح کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیگ اٹھاتا ہے اور چھلانگ لگا دیتا ہے۔ پیچھے ضعیف اور بچہ رہ گئے۔ بزرگ آدمی نے بچے سے کہا کہ میں ویسے بھی جلد مر جائوں گا تم پیراشوٹ لے لو۔ بچہ محبت سے بڑے میاں کو کہنے لگا!بابا جی ہمارے پاس دو پیراشوٹ ہیں وکیل صاحب اپنی ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیراشوٹ کی بجائے میرا سکول بیگ اٹھا کر کود گئے۔