ینگ ڈاکٹرز بھی کسی سے کم نہیں‘ اپنے سینئرز کی توہین‘ سڑکوں پر ہنگامہ آرائی اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ مگر لاہور میں امراض قلب کے ہسپتال کے اندر اور باہر سینہ زوری‘ غنڈہ گردی اور بے آسرا مریضوں کے علاوہ ان کے لواحقین پر تشدد کا جو ’’کارنامہ‘‘ نوجوان وکلا نے انجام دیا اس کا ادنیٰ جواز صرف وہی پیش کر سکتا ہے جس کی آنکھ شرم و حیا‘ ذہن خیال روز جزا اور دل خوف خدا سے عاری ہے۔ عرفان نامی ایک ڈاکٹر کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں موصوف کھلنڈرے انداز میں وکیلوں کا مذاق اُڑا رہے ہیں لیکن ایک ڈاکٹر کی تضحیک آمیز ویڈیو کا اس قدر شرمناک اور وحشیانہ ردعمل؟رضا ربانی‘ لطیف کھوسہ اور حامد خان کو جواز پیش کرتے دیکھ کر میں تو شرمندہ ہوا‘ یہ بزرگ وکیل شائد کبھی نہ ہوں۔ ان سنگدل و سفاک وکیلوں کے سوا جو جتھے کی صورت میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ آور ہوئے ہر ذی شعور جانتا ہے کہ امراض دل کے ہسپتال میں صرف وہی مریض آتے ہیںجن کی جان پر بنی ہوتی ہے ڈاکٹر اور معاون عملے کی معمولی کوتاہی‘ دوائی کے استعمال ‘ آپریشن میں تاخیر اور غیر معمولی شور شرابے سے دل کی دھڑکن بند ہوتی اور آکسیجن کی بندش زندگی کا چراغ گل دیتی ہے۔ہسپتال میں زیر علاج دل کے مریضوں کے لواحقین کے لئے ایک ایک پل قیامت کا ہوتا ہے‘ قانون کے رکھوالوں نے مگر یہ سوچا نہ آئی سی یو میں پڑے مریضوں پر رحم کھایا‘ ینگ ڈاکٹرز سے بدلے کے جنون میں مبتلا ان اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں سے کسی کو یہ خیال بھی نہیں آیا کہ ہسپتال حالت جنگ میں دشمنوں کے حملے سے محفوظ رہتے ہیں اور کل کلاں کو خود انہیں اور ان کے بزرگوں ‘ بھائی ‘ بہنوں کو بھی انہی ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے بغرض علاج پالا پڑسکتا ہے۔2007ء میں عدلیہ تحریک سے پہلے بھی وکلا احتجاج کرتے اور بسا اوقات سڑکوں پر نکل کر توڑ پھوڑ کے مرتکب ہوتے مگر اتنے شتر بے مہار نہ تھے جتنے اب ہیں کہ جان لیوا قانون شکنی پر اُتر آئیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کو ایک فوجی آمر نے معطل کیا تو وکلا برادری کے علاوہ سیاسی جماعتوں اور عوام کو تاثر ملا کہ جنرل(ر) پرویز مشرف ایک دبنگ‘ اُصول پسند اور قانون کی بالادستی کے علمبردار جج سے خائف ہے اور مزید چند سال تک کوس لمن الملک بجانے کے لئے راستے کے اس کانٹے یا پتھر کو ہٹانے کے درپے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی زخم خوردہ تھیں‘ وکلا نے علم بغاوت بلند کیا تو شریف خاندان اور زرداری قبیلے کی دامے‘ درمے‘ سخنے قدمے تائید و حمائت اسے مل گئی اور ایک تحریک برپا ہو ئی جس میں ججوں سے زیادہ وکلا کی عزت ‘طاقت اور ساکھ میں اضافہ ہوا پھر چل سو چل۔ تب سے آج تک وکلا نے عام شہریوں کو چھوڑیے اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا وہ نرم سے نرم الفاظ میں شرمناک ہے: گلہ وفائے جفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے کسی بت کدے میں بیاںکروں تو کہے صنم بھی ہری ہری ینگ ڈاکٹرز اور وکیلوں کے جھگڑے کو احسن انداز میں نمٹایا نہ گیا‘ یہ ڈاکٹرز اور وکلا تنظیموں کے علاوہ انتظامیہ کی کوتاہی ہے ‘خفیہ ایجنسیوں نے حملے کی منصوبہ بندی کاسراغ کیوں نہ لگایا اور لگایا تو پیشگی اقدام سے گریز کی وجہ کیا تھی ۔ وکلا جتھہ بند ہو کر لاہور ہائی کورٹ سے نکلے تو پولیس و انتظامیہ نے روک تھام کی سنجیدہ کوشش نہیں کی یہ سنجیدہ سوالات ہیں؟۔ پولیس عدلیہ اور وکلا سے خوفزدہ ہے‘ ماضی میں مختلف مواقع‘ بالخصوص سانحہ ماڈل ٹائون پر سینئر و جونیئر پولیس افسر اہلکار قربانی کا بکرا بنے‘ معاملہ وکیلوں کا ہو تو پولیس افسران کو گلہ ہے کہ حکومت ان کی جائز پشت پناہی نہیں کرتی‘ عدلیہ وکیلوں کے مقابلے میں پولیس کی سوتیلی ماں بن جاتی ہے اور ہمیشہ تبادلوں ‘ تنزلیوں اور ملازمت سے برخاستگی کی سزا انہیں بھگتنی پڑتی ہے۔ میڈیا بھی بالعموم پولیس ہی کو ظالم اور قانون شکن ادارے کے طور پر پیش کرتا ہے‘ بدھ کے روز پولیس اگر پی آئی سی کی حفاظت کے لئے وکیلوں کا راستہ روکتی‘ زور زبردستی پر آنسو گیس‘ لاٹھی چارج کی دستیاب آپشن بروئے کار لاتی تو پولیس افسروں کی پختہ رائے ہے کہ عدلیہ‘ میڈیا حتیٰ کہ حکومت قومی املاک اور انسانی جانوں کی حفاظت کو یقینی بنانے پر شاباش کے بجائے ملک کے معزز اور قانون کے رکھوالے طبقے سے بدسلوکی کی مرتکب ٹھہراتی اور کہیں کوئی شنوائی نہ ہوتی۔ ماضی میں تو جو ہوا سو ہوا‘ قوم کو شدت سے یہ احساس ستاتا رہا ہے کہ عدلیہ تحریک اشرافیہ کی طبقاتی جنگ تھی‘ اختیارات اور بالادستی کے حصول کی جدوجہد جس کے بطن سے سیاسی‘ مذہبی ‘ لسانی‘ نسلی کی طرح وکیل مافیا نے جنم لیا جو اپنی قوت و طاقت کے اظہار اور ذوق بالادستی کی تسکین کے لئے جب اور جہاں چاہے ریاست اور قانون کو بے بس بلکہ مذاق بنا کر رکھ دیتا ہے۔ گزشتہ روز کالے کوٹ والوں نے ان لوگوں کو شرمندہ کر دیا جو اس پیشے کاعلامہ اقبال قائد اعظم محمد علی جناح جیسے عظیم المرتبت قائدین کی وابستگی کی وجہ سے غیر معمولی احترام اور تقدس محفوظ رکھتے ہیں۔بلا شبہ اس واقعہ پر پوری وکلا برادری گردن زدنی ہے نہ اس کا دوش ہر قانون دان کو دیا جا سکتا ہے‘ معاشرے میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے‘ تربیت پر کوئی توجہ نہیں دیتا اور حسن اخلاق کی تلقین مفقود ہے‘ طاقت کا حصول ہر ایک کی اولین خواہش ہے۔ سیاستدان ‘ مولوی‘ استاد‘ طالب علم اور وکیل‘ دوسروں کو تہس نہس کرنے کی خواہش اور قوت ہر ایک کو درکار۔اڑتالیس گھنٹے گزرنے کے باوجود بار کونسلوں‘ بار ایسوسی ایشنوں اور بڑے بڑے قانونی ماہرین کی خاموشی سے کیا مفہوم اخذ کیا جائے؟اعتزاز احسن نے اخلاقی جرأت دکھائی اور کہا کہ اس واقعہ سے میرا سرشرم سے جھک گیا‘ باقی گونگے شیطان بنے پوری وکلا برادری کو شرمندگی سے دوچار کرنے والے غنڈوں کی خاموش تائید و حمائت کر رہے ہیں‘ بار ایسوسی ایشنوں کے الیکشن قریب ہیں اور ینگ وکلا کے ووٹ بٹورنے کے لئے وکلا تنظیموں نے عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور ڈاکٹروں کے علاوہ صحافیوں کے عدالتوں میں داخلے پر پابندی کی دھمکی دی ہے۔ ایک علاقائی بار ایسوسی ایشن کا یہ اعلامیہ تو ڈھٹائی کی انتہا ہے کہ کوئی وکیل اپنے چیمبر میں کسی ڈاکٹر کو کرسی پیش کرے گا نہ اس کی قانونی معاونت اور نہ کسی ڈاکٹر کی طرف سے عدالت میں پیش ہو گا۔ عمران خان‘ چیف جسٹس آف پاکستان‘ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے لئے یہ واقعہ ٹیسٹ کیس ہے‘ ریاست مدینہ کے علمبردار اور قانون کی بالادستی کے دعویداروں کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ پاکستان کو بنانا ریاست بنانے کی سازش کا سراغ لگائیں‘ذمہ دار وکلا پر نہ صرف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302(قتل عمد) بلکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات چلا کر انہیں قرار واقعی سزا دلائیں‘ عبرت کی مثال بنائیں اور ثابت کریں کہ ریاست و حکومت کی رٹ بحال کرنے کے لئے حکمران اور ریاستی ادارے سنجیدہ ہیں ‘کسی بے گناہ سے تعرض نہ کیا جائے اور قصور وار کسی صورت بچنے نہ پائے‘ سول عدالتیں وکلا کے سامنے بے بس ہیں‘ فوجی عدالتوں کا قیام ناممکن‘ مجرموں کو سزا دینے کا کوئی غیر روایتی طریقہ ڈھونڈھ کر جتھہ بند قانون شکنی کی حوصلہ شکنی اور قانون کی بالادستی ممکن ہے۔ بار اور بنچ کی خاموشی سے گلو بٹوں کے حوصلے بلند ہوئے اگر عمران خان بھی اپنے اردگرد موجودناقص مشیروں کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر پیچھے ہٹ گئے تو جتھے مزید مضبوط ہوں گے اور قانون صرف طاقتوروں اور مالداروں کے گھر کی لونڈی بن کر رہ جائے گا۔ یہ جائزہ لینے کی ضرورت بھی ہے کہ ڈاکٹروں ‘وکیلوں کی ایسوسی ایشنوں کو قانون اور سماجی و عوامی مفاد سے بالاتر ہو کر کام کرنے کی کھلی چھٹی ملنی چاہیے یا ان کا دائرہ کار محدود کرنا ضروری ہے۔وکلا گردی کو روکنے کا کوئی دوسرا طریقہ کیا ہے؟