لاہور (جنرل رپورٹر، 92نیوز رپورٹ)وکیلوں کے ظلم سے سہمے مریض ہسپتال کے باہر مارے مارے پھرتے رہے ۔ ایک مریض نے کہاان لوگوں نے کیا تعلیم حاصل کی ہے ۔یہ مجبور اوربوڑھے لوگوں کو موت کے حوالے کررہے ہیں، یہ ان کی وکالت ہے ۔ایک شخص نے کہا وکیلوں کی وجہ سے ہسپتال میں مریض مررہے ہیں۔ یہ کوئی عام ایمرجنسی نہیں بلکہ دل کے ہسپتال کی ایمرجنسی ہے ۔ایک مریض نے روتے ہوئے کہا میرے دل کی بیٹری لگنی اور ٹیسٹ ہونا تھے ،ہنگامے کی وجہ سے کچھ بھی نہیں ہوا۔جب صحافی نے سوال کیا آپ یہاں سے کیوں نہیں جارہے تو مریض نے جواب دیا یہ سب کچھ جو مجھے لگا ہوا ہے اور یہ میٹرز اتروا کر ہی جاسکوں گا۔ایک ماں نے رو کر وکیلوں کی غنڈہ گردی کی داستان بیان کی اورکہا بچہ میری گود میں تھا ،میں نے بھاگ کر بچے کو بچانے کی کوشش کی اور بچے کو لے کر ، ساتھ بچی کا ہاتھ پکڑ کر غسلخانے کی طرف بھاگی اور اندر جا کر دروازے کی کنڈی لگا رہی تھی کہ ایک وکیل نے دروازے کو ٹھڈا مار ا جس سے میں دیوار سے ٹکرائی اور گندے پانی میں گر گئی۔ ایک شخص نے رو کربتایاان ظالموں نے ہمارے مریض کے منہ سے آکسیجن ماسک اتار دیا ۔ان کا لحاظ نہیں کرنا چاہئے ۔ پی آئی سی پر وکلا کے حملے کے رد عمل میں عام شہریوں نے کہا کارڈیالوجی پر حملہ بہت افسوسناک ہے ،حکومت کو اس کیخلاف ایکشن لینا چاہئے ،کیا یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں؟ ایک شہری نے کہا وکلا نے پی آئی سی پر حملہ کرکے بہت غلط کام کیا ۔ان کیخلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے ۔وکلا کیا کررہے ہیں، ان کی وجہ سے کتنے مریض جاں بحق ہوئے ،ان کے ورثا کو کون انصاف دے گا۔اگر وکلا ایسے کام کرینگے تو عام شہری سے کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔ وکلا کوسبق سکھانا چاہئے تاکہ انہیں آئندہ ایسی حرکت کرتے ہوئے سو بار سوچنا پڑے ۔